ڈو مور کہنا بند کریں: صدر زرداری کا خطاب
صدر پاکستان آصف علی زرداری کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب عوامی تمناﺅں اور آرزﺅں کا ترجمان تھا۔ انہوں نے عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو ڈومور کہنا بند کردیں۔ صدر پاکستان نے اقوام عالم کے اہم فورم پر عالمی سربراہوں کی موجودگی میں کھری کھری سنائی ہیں۔ امریکہ کا پاکستان سے رویہ ہمیشہ توہین آمیز ہی رہا ہے جس طرح ایک صنعتکار اپنے مزدور سے اور ایک جاگیردار اپنے مزارع سے سلوک کرتا ہے وہی سلوک امریکہ نے ایک آزاد اور خودمختار پاکستان سے روارکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان تعلقات کا بانی آمر جرنیل ایوب خان بھی امریکہ کو ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ کہنے پر مجبور ہوا۔ جب بھٹو شہید نے پاکستان کی آزادی، خودمختاری، وقار اور ساکھ کے تحفظ اور دفاع کے لیے امریکہ کو آنکھیں دکھائیں تو امریکہ نے انہیں سازش کے تانے بانے بن کر سیاسی منظر سے ہٹا دیا۔ کاش جناب آصف علی زرداری اپنے سسر کے قاتل امریکہ کو 2008ءمیں ہی صاف جواب دے دیتے اور امریکہ کے کہنے پر ڈومور کرنا بند کردیتے تو آج پاکستان ہر لحاظ سے صحت مند اور توانا ملک ہوتا۔ دیرآید درست آید کے مصداق اب بھی اگر صدر پاکستان اپنے قابل تحسین خطاب کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف کی پاکستان دشمن پالیسی مکمل طور پر تبدیل کردیں تو پاکستان عالمی سازشوں کے جال سے باہر نکل سکتا ہے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے خطاب کے آغاز میں ہی گستاخانہ فلم کی پرزور مذمت کر کے اسلامی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ صدر پاکستان نے درست کہا کہ اقوام عالم حضور اکرمﷺ کی اشتعال انگیز توہین پر خاموش تماشائی کا کردار ادا نہ کریں۔ اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ سے ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ اب اس مطالبے کی پیروی بھی کی جانی چاہیئے۔
صدر پاکستان نے اپنے خطاب میں امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں عالمی برادری کو پاکستانی عوام کی تشویش سے آگاہ کیا جو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اگر وکی لیکس کے مطابق سابق وزیراعظم گیلانی نے امریکی اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے قومی مفاد کے برعکس یہ نہ کہا ہوتا کہ ”آپ ڈرون حملے جاری رکھیں میں قومی اسمبلی میں سیاسی واویلا کرتا رہوں گا“ تو امریکہ کبھی ڈرون حملے جاری نہ رکھتا۔ پاکستان کے عوام جب تک ”امریکی ایجنٹوں“ سے نجات حاصل نہیں کرتے ایٹمی ملک پاکستان امریکہ کے ”تھلے“ لگا رہے گا۔ امریکی ایجنٹوں کو ہیرو بنانے والے صحافیوں اور اینکرز کا محاسبہ بھی ہونا چاہیئے۔ صدر پاکستان نے بڑی جرات اور دلیری کے ساتھ کہا کہ کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کا نظام ناکام ہوا ہے اور یہ ادارہ اپنی ہی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے سے قاصر رہا ہے۔ عوام کا تاثر یہ ہے کہ حکمران اب کشمیر کا ذکر ”ثواب دارین“ کے لیے ہی کرتے ہیں وگرنہ وہ کب کے کشمیر کے مقدر کا خفیہ فیصلہ کرچکے ہیں۔ مجاہد صحافت جناب مجید نظامی کی کشمیر کے ساتھ لازوال کمٹ مینٹ کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ آج بھی زندہ ہے۔
صدر پاکستان نے اپنے خطاب میں یاد دلایا کہ پاکستان اپنے سات ہزار فوجیوں اور پولیس اہل کاروں اور 37 ہزار شہریوں کی قربانی دے چکا ہے اور وہ خود اپنی بیگم بے نظیر بھٹو کو شہید کراچکے ہیں۔ صدر پاکستان نے کہا کہ آج میں سوالات کے جوابات دینے نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی جانب سے سوال کرنے آیا ہوں۔ مجھے دو سال کے اس بچے کی جانب سے سوال کرنا ہے جو مون مارکیٹ لاہور کے بم دھماکے میں بن کھلے مرجھا گیا۔ صدر پاکستان نے سوال اُٹھایا کہ پاکستان اور کتنے صدمے برداشت کرسکتا ہے۔ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس کا جواب عسکری اور سیاسی قیادت کو پوری قوم کو دینا چاہیئے مگر جو حکمران خود ہی سوال بن جائیں وہ عوام کو کیا جواب دے سکتے ہیں۔ صدر پاکستان کا خطاب بلاشبہ پاکستانی عوام کے جذبات کا آئینہ دار تھا۔ ان سے التماس ہے کہ وہ اس حقیقت پسندانہ خطاب کی روشنی میں اندرونی حکمت عملی اور پالیسیوں پر نظرثانی کریں تاکہ پاکستان اندرونی طور پر اس قدر متحد اور مستحکم ہوسکے کہ عالمی قوتیں اسے ”ڈومور“ جیسا توہین آمیز حکم دینے کی جرات نہ کرسکیں۔ دُکھ ہوتا ہے اور خون کھولتا ہے جب ایٹمی ریاست کے حکمران دوسروں سے امن اور ڈالروں کی بھیک مانگتے ہیں۔ پاکستانی اشرافیہ اور مقتدر قوتیں اپنے رب پر بھروسہ کرنے کی بجائے امریکہ کی پرستش کرتے ہیں اور اس سے اُمیدیں وابستہ کرلیتے ہیں۔ عالمی اور فکری معنوں میں یہ شرک ہے جو رب کائنات کو سخت ناپسند ہے۔ جب تک امریکہ کے بت کو پاش پاش کرکے ایک خدا اور ایک رسول ﷺ سے قلبی اور عملی رشتہ استوار نہ کرلیا جائے مسلمان کبھی زوال سے عروج کی جانب سفر شروع نہیں کرسکتے۔
مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الاللہ