امپورٹڈ سیاستدان....؟؟؟
موجودہ حکومت نے کوشش تو کی تھی کہ دوہری شہریت رکھنے والوں کو تحفظ دیا جا سکے تاکہ اعلیٰ ایوانوں میں نہ صرف انہیں نمائندگی مل سکے بلکہ سیاسی اور مالی حیثیت رکھنے والے اعلیٰ مناصب ان کی خدمت عالیہ میں پیش کرکے سامراج کے دائمی نظام کو خراج تحسین کیا جا سکے لیکن سپریم کورٹ نے حکومت کے فیصلے پر خط تنسیخ پھیر دیا اور فوراً ہی دوہری شہریت رکھنے والے عوامی نمائندوں پر پابندی کر دی۔ اب چیف جسٹس افتخار محمد کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے دوہری شہریت رکھنے والے گیارہ ارکان کو جو صوبائی اور قومی اسمبلیوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور آرٹیکل 63 کی زد میں آنے والا فرد الیکشن میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہوتا اور الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ تمام اراکین پارلیمنٹ سے دوہری شہریت نہ رکھنے کا دوبارہ حلف لیں۔آئین میں تو پہلے ہی واضح ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والا شخص پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تھا اب کوئی بھی اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تھا۔ اب کوئی بھی شخص جو کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھتا ہو وہ پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں ہو گا کیونکہ وہ دوسرے ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف رکھتا ہے اور جو کسی دوسرے ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے وہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیسے کر پائے گا امریکی شہریت کے وقت بیان حلفی جو دیا جاتا ہے اس میں درج ہوتا ہے کہ امریکی مفاد کی خاطر گولی بھی چلانی پڑے تو وہ چلائیں گے اور اسی طرح ملکہ معظمہ برطانیہ کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا جاتا ہے۔پاکستان میں اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت اپنا سرمایہ اور دلچسپیاں وطن سے باہر منتقل کر چکے ہیں۔ انہوں نے ملکی وسائل سے ہر طرح سے فائدہ اٹھایا‘ عہدے حاصل کئے۔ پھر مال سمیٹا اور اپنے ملک کی اعلیٰ‘ انتظامی اور اخلاقی قراردادوں کو برباد کیا جیسے کسی دشمن قوم سے انتقام لیا جاتا ہے اور پھر اپنے مال و دولت اور بچوں سمیت سامراج کی بسائی ہوئی جنت کے کسی کونے میں رہنے کو ترجیح دی۔ پاکستان کے حصے میں غربت آئی پسماندگی آئی اور پھر اپنی مال و دولت کی چمک کے سہاے سے واپس ملک میں آکر الیکشن لڑا تاکہ ایک بار پھر قوم کے خون پسینے سے کمائی گئی دولت کو کس طرح سمیٹا جائے ان میں حزب اقتدار کے نام بھی شامل ہے اور حزب حزب اختلاف کے بھی اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پرکام کرنے والے بیورو کریٹس بھی شامل ہیں اور اب تو اس مشترکہ مقصد کی خاطر ان کا بیلیسنٹرز کلب بن چکا ہے اور آصف علی زرداری اس کلب کے صدر ہیں اور میاں نواز شریف اس کلب کے وزیراعظم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ راجہ پرویز اشرف اب تو خیر سے وزیراعظم ہیں بلکہ وہ تو پانی اور بجلی کی وزارت کے طفیل ہی اس کلب کا حصہ بن چکے ہوئے ہیں۔ بدنام زمانہ سول سرونٹ سلمان فاروقی آج بھی اس کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر مل کے اندر اور باہر فرائض انجام دے رہا ہے۔ رحمان ملک بھی اس کلب کا ممبر ہے اسکی تمام دولت لندن اور امریکہ کے بنکوں میں دفن ہے اور اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہوتے ہی یہ سب موسمی گدوں کی طرح اپنے اپنے اصلی نشیمن جہاں جہاں کے حلف لئے ہوئے ہیں وہاں جا کر پناہ گزین ہوں گے اور عوام ہاتھ ملتے اور ان کے نعرے لگاتے (کبھی حق میں اور کبھی خلاف) رہ جائیں گے۔ لیکن اب سپریم کورٹ کے فیصلے سے امید ہے کہ عوام کی محرومیوں کا ازالہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ امپورٹڈ سیاستدانوں کا راستہ بند ہو جائے گا۔ مڈل کلاس کو آگے آنے کا موقع ملے گا اور یہی تبدیلی کا آغاز ہے۔