عشق مصطفی ﷺ اور قوت عشق (آخری قسط)
ہمارا دکھ اور حادثہ یہ ہے کہ مسلم حکمران حکمت اور فراست سے عاری ہیں۔ وہ عیش کوش اور جاہ طلب ہیں یہ عوام کو بنیاد پرست کہتے ہیں۔ ہماری بنیاد وحدانیت اور سیرت طیبہ ہے۔ ہم اس کو فراموش کرکے کس درپر جائیں؟ آپنے آقاکی ناموس و حرمت پر کٹ مرنا ایمان کی بنیاد ہے۔ یہ ہمارے لئے عظیم ترین سرمایہ ہے۔ عشق رسول ہر مسلمان کی شان ہے پہچان ہے۔ یہ تو باعث سکون و راحت ہے۔ وسیلہ عظمت و رفعت ہے‘ یہ عشق کی بلندیوں کا سفر ہے۔ مسلم حکمرانوں کا کردار حیرت انگیز اور حقارت آمیز ہے جو اقتدار کےلئے اسلاف کی اقدار اور اسلامی افکار کو فراموش کئے بیٹھے ہیں۔ تف ہے گونگی بہری او آئی سی پر جو کسی ذلت و عظیمت پر ٹس سے مس نہیں ہوتی؟ ایک ارب ستر کروڑ مسلمانوں کے اشکوں اور جذبوں کا کون ترجمان ہے؟
پاکستان کی اسمبلی و کابینہ نے تو احتجاج کیا۔ جمعہ کو یوم عشق مصطفی کے نام سے عام تعطیل کرکے عوامی جذبوں کو اظہار کا موقع دیا ۔ ٹی وی چینل پر دکھائی دینے والا احتجاج عوام کی حدتک تھا خواص خوف اور مصلحت میں مبتلا رہے۔ احتجاج میں ناخوشگوار واقعات نے اس دن کے تقدس کو مجروح کیا مگر عام پاکستانی کا جذبہ وہی تھا جو مرشد اقبال کا جذبہ تھا۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں ”اسیں گلاں ای کر دے رہ گئے۔ ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا“ یعنی ہم باتیں کرتے رہے اور ترکھان کا بچہ بازی جیت گیا۔ اسی علامہ اقبال نے تصور پاکستان پیش کیا۔ پاکستان بنانے میں بنیادی کردار اس نعرے کا تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ اس نعرے پر برصغیر کے ہر گوشہ ہر کونہ سے مسلمان لبیک کہتے ہوئے سبز ہلالی پرچم تلے جمع ہوئے مگر جب ہم نے اس نعرے سے روگردانی کی تو ذلت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ آج عہد کرنا ہے اس نعرے کی جانب لوٹنے کا تاکہ پھر عالم اسلام کے ایک ارب ستر کروڑ فرزندان 1947ءکے جذبوں اور ولولوں کی طرح متحدو متفق ہو سکیں۔ ہمیں دیانت صداقت عدل رواداری کا پیغام دنیا میں عام کرنا ہوگا جس کے ذریعے پیامبر اعظم نے صدیوں کے اندھیروں کو روشنی و رعنائی بخشی۔ اولاد آدم کو شرف انسانیت کا نمونہ پیش کیا جس کی مثال ڈھونڈنا محال ہے۔ صلیبی جنگوں کے شوقین طاقت کے نشے میں بد مست قوتوں کے لئے ایک بار پھر صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کا جذبہ ایمان اور عمل صالح بروئے کار لانا ہو گا۔ دنیا کی امامت کا خواب عدالت شجاعت اور صداقت کے زریں اصولوں پر کاربند ہو کر شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے یہی قوت عشق اور عشق مصطفی ہے۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے