زراعت کا اہم شعبہ عدم توجہی کا شکار کیوں؟
مکرمی! ملک کی آبادی کا68فیصدحصہ زراعت سے وابستہ ہے۔زراعت ہماری معیشت کی اہم بنیاد ہے ملکی جی ڈی پی میںصرف21فیصد جبکہ روزگار کی فراہمی میں اس کا حصہ44فیصد ہے اور یہ شعبہ حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے۔پانی زراعت کی اہم ضرورت ہے جوکہ روز اول سے پاکستان کے لئے نازک مسئلہ بناہوا ہے۔ 1960میں حکومت پاکستان نے زیر دست ہوکر بھارت کے ساتھ سندھ طاس کا معاہدہ کیاجس میں بہت سے سقم موجودرہ گئے جن کی آڑ میں بھارت مسلسل پاکستان کی زراعت کو تباہ کرنے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔بھارت سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے حصے کے تین دریاﺅں چناب،جہلم اور سندھ میں نقب لگا رہا ہے اور انسانی ضروریات کے لئے طے شدہ پانی بقیہ تین دریاﺅں ستلج،بیاس اور راوی میں فراہم نہیں کررہا وہاں عملاً خشکی ہے۔بگلیہار ڈیم کی سٹوریج کے لئے پاکستان کے حصے کاپانی روک رہا ہے۔معاہدہ کے مطابق ہیڈ مرالہ پر55ہزار کیوسک پانی بہنا چاہئے تھا وہاں2008سے38ہزار کیوسک پانی بہہ رہا ہے۔ اسی طرح بھارت کشن گنگاڈیم منصوبے سے دریائے نیلم کا رخ بدل رہا ہے اور سوال ڈیم بنا کر چناب کے پانی کو روک رہا ہے۔ بھارت کار گل سے مزید15کلومیٹر اوپر زیر زمین نہر نکال کر دریائے سندھ کا پانی چوری کررہا ہے۔ساتھ ہی کار گل ڈیم کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔علاوہ ازیں دریائے سندھ پر نیموباز گوڈیم کی ناجائز تعمیر اور دریائے سندھ کے معاون دریا پر چوتک ڈیم کی تکمیل پر گامزن ہے لیکن ہماری طرف سے پانی کے موضوع پر ابھی تک کوئی ٹھوس موقف اور لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔بھارت پر عالمی برادری کے ذریعے باور کروایا جائے کہ یہ پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے وہ اس کےلئے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے۔مزید برآں قومی ذرائع ابلاغ میں جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کو مناسب کوریج دی جاتی ہے وہاں زراعت کو بھی مناسب انداز میں کوریج دی جائے تاکہ چھوٹے کسانوں کے مفادات کا تحفظ اور ان کے مسائل سے آگاہی حاصل ہوسکے۔
سمیع الرحمان ضیائ،منصورہ لاہور