سوئس خط، آزادی قانون بڑی نعمت
طوطے اور مینا کی کہانی ہم سب نے سن رکھی ہے۔ طوطا اور مینا دونوں ہی خوبصورت پرندے ہوتے ہیں اورمجھے تو کوے بھی اپنی حرکات و سکنات کی وجہ سے بہت خوبصورت لگتے ہیں مگر طوطے اور مینا کی جو کہانیاں مشہور ہیں اس کو کسی بھی دور میں نظرانداز نہیں کیا گیا۔ ادیب اور لکھاری اپنی تحریروں میں گاہے بگاہے طوطے مینا کی روایتی کہانیوں کے علاوہ نت نئی کہانیاں تراشتے اور تخلیق کرتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے کسی رسالے میں طوطے مینا کی ایک عجیب افسانوی داستان پڑھی۔ داستان توبچوں کے لئے تھی مگر اس میں حقیقت پسندانہ درد تھا۔ ایک طوطا پنجرے میں قید تھا اور ساتھ والے پنجرے میں مینا قید تھی۔ طوطا اور مینا دونوں ایک دوسرے کے ساتھ محوگفتگو تھے۔ طوطا مینا سے پوچھ رہا تھا کہ اس کو سب سے عزیز کیا چیز ہے اور اس کی زندگی کے سب سے حسین پل کون سے ہیں کہ جن کو وہ ایک مرتبہ پھر اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ طوطے کے اس سوال نے مینا کو آبدیدہ کر دیا اور اس نے اپنی گردن ڈال کر افسردگی اور حسرت میں ڈوبے لہجے میں کہا کہ اسے سب سے زیادہ عزیز اپنی آزادی ہے اور اپنی زندگی کے وہ پل اسے سب سے زیادہ حسین لگتے ہیں جب وہ آزاد تھی اور آج ایک مرتبہ پھر آزادی کے انہی حسین لمحوں کو اپنی زندگی میں آباد دیکھنا چاہتی ہے۔ طوطے نے مینا کی یہ بات سنی تو وہ بھی عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گیا اور کچھ دیر خاموشی کے بعد بولاکہ اسے بھی آزادی سب سے زیادہ عزیز ہے حالانکہ اس نے ابھی تک اپنی زندگی میں آزادی کا مزا چکھا ہی نہیں تھا۔ بچپن میں جب سے اس نے ہوش سنبھالا وہ ایک پنجرے سے دوسرے پنجرے میں منتقل ہو کر قید بھگتتا چلا آ رہا تھا۔ طوطا اور مینا اسی طرح اکثر اپنی آزادی کے خواب دیکھ کر افسردہ ہوتے اور پھر ایک دن انہوں نے اپنی آزادی کو حتمی شکل دینے کے لئے جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ پہلے ایک روز طوطے نے مرنے کا ڈرامہ رچایا اور جب اسے پنجرے سے باہر نکال کر پھینک دیا گیا تو وہ اڑ گیا اور اس نے خوشی سے ٹھنڈی آہ بھر کر آزاد فضا¶ں میں سانس لیا۔ طوطے کے جانے کے کچھ روز بعد مینا نے بھی یہی عمل دوہرایا اور وہ بھی اپنی زندگی میں ایک مرتبہ پھر آزاد فضا¶ں میں گھومنے پھرنے لگی۔ آزادی اس کائنات کی ہر جاندار شے کو عزیز ہے۔ انسانی معاشروں میں آزادی کے لئے ہر دور اور ہر صدی میں قوموںنے بڑی بڑی طاقتوں کے ساتھ جنگیں لڑیں۔ جدوجہد آزادی کےلئے ان گنت انسان اپنی زندگیوں کو قربان کر چکے ہیں اور آج بھی دنیا کے ہر اس کونے میں جہاںسامراجی اور فرعونی طاقتیں انسان کو دبانا چاہتی ہیں وہاں جدوجہد آزادی کی تحریکیں اپنے پورے جوبن پرہیں۔ معاشرتی اور سماجی آزادی کے لئے قانون کی آزادی اور حکمرانی ازبس ضروری ہے۔ شیرخدا حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کوئی بھی معاشرہ قانون کی حکمرانی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ سرورکائنات حضرت محمد مصطفیﷺ نے دنیا میں قانون کی حکمرانی، مساوات اور برابری کی ایک ایسی بنیاد رکھی کہ اس کی نظیر دنیاکی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتے ہوئے پکڑی جائے تو میں اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری کروں گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ عرب میں قانون کی حکمرانی قائم ہوئی توہر فرد قانون کے تابع آ گیا۔ کیا امیر، کیاغریب ہر کوئی ایک ہی قانون کے مطابق ایک ہی طرح کی سزا¶ں کا حقدار قرار پاتا تھا مگر اسلامی معاشروں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کم ہوتی چلی گئی۔ افسوس ہے کہ پاک سرزمین پاکستان جس کی بنیادوں میں بیس لاکھ شہیدوں کا لہو اور ہڈیاں شامل ہیں وہ عظیم مملکت خداداد بھی اپنے دامن میں قانون کی حکمرانی کو اس انداز میں جگہ نہیں دے سکی کہ جس کے لئے یہ ملک قائم کیا گیا تھا اور جس کا خواب حضرت قائداعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔
آزاد عدلیہ کو قوم سلام پیش کرتی ہے کہ اس نے نہ صرف این آر او کالعدم قرار دیا بلکہ این آر او کے پس منظر میں سوئس حکام کے ذریعے ختم کرائے گئے سوئس کیسز کے پس منظر میں جا کر اس کی بنیاد پر قانون کی حکمرانی قائم کرنا چاہتی ہے۔ آج جبکہ سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ پھر حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لئے خط کے مسودے میں عدالتی احکامات کی روشنی میں پانچ اکتوبر تک تبدیلی کرنے کی مہلت دی ہے تو پوری قوم کا سر فخر سے بلند ہو رہا ہے۔ یہ قوم اس طوطے اور مینا کی طرح ہے جسے جاگیرداروں، وڈیروں، افسرشاہی اور سرمایہ داروں نے مسلسل قید کر رکھا ہے۔ یہ قوم اپنی آزادی کے لئے طوطے اور مینا کی طرح آزاد عدلیہ کی تحریک میں حصہ لے چکی ہے اور اب انشاءاللہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو کر رہے گی۔ عوام بھی اپنی تحریک کو کسی طور بھی رکنے نہیں دے گی کہ آزادی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں جب پرندے آزادی کے لئے پنجروں کے اندر تحریک چلا سکتے ہیں تو عوام کی آزاد عدلیہ کے لئے تحریک کیسے رائیگاں جا سکتی ہے۔