• news

یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں!!! جو غیروں نے پھیلائی ہیں

کئی روز کی غیر حاضری کے بعد آج پھر پیارے قارئین نوائے وقت کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ تاخیر کی وجہ بڑی اہم ہے لیکن ایک وجہ جو اصل میں غیر حاضری کا باعث تھی وہ بتانے میں کوئی حرج نہیں لیکن حالات کی خرابی کو بڑھا چڑھا کے بیان کرنا، مزے لینا، پیسے بٹورنا، کسی طور مناسب نہیں ویسے بھی بانی پاکستان حضرت قائداعظم نے جو فرمایا تھا کہ
"The press and the nation rise and fall togather"
اور مجھے یقین ہے کہ ہماری تمام تر خرابیوں کی وجہ محض کمپنی کی مشہوری اور ریٹنگ بڑھانا ہے! کئی سال پہلے کی بات ہے کہ وجیہہ الدین احمد نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین بن کے آئے تو موصوف نے اپنی ابتدائی تقریر میں فرمایا تھا کہ گندی مکھیاں گند پر بیٹھتی ہیں اور آج کے صحافی چونکہ بڑے بڑے مکھ ہوتے ہیں اس لئے وہ شہد کی مکھیوں کی طرح پھولوں پر بیٹھنے کی بجائے گند کے اردگرد ہی منڈلاتے رہتے ہیں۔ اللہ آج بھی کرم کرے کہ ہم صحافی نظریاتی پاکستان میں ضروریاتی ہو کر پاکستان کی خوبصورتی کا ذکر کرنے کی بجائے اپنی پیدا کردہ خرابیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے سے آج بھی تائب ہو جائیں!
بانی پاکستان حضرت قائداعظم کی بیان کی گئی ہدایت بالکل پیغمبر اسلام حضرت محمد کے فرمان کے عین مطابق ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ ”کسی کے جھوٹا ہونے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق کئے آگے بیان کر دے“
ہم اخبار نویسوں نے خامہ بگوش قلم رکھنے والوں پر عمل کرنے والوں نے جو کچھ کیا یہ یقیناً ہر پاکستانی کے علم میں ہے اور وہ لوگ جو امریکی ڈالروں اور غیر ملکی ویزوں، منہ ٹیڑھا کرکے تجزیہ کرنے والے اپنے آپ کو دانشور کہلوانے کی خواہش رکھنے والے جنہوں نے ہمیشہ ترجمے کو اپنے تجزئیے کا نام دے کر خرابیاں پیدا کی ہیں بلکہ وہ لوگ تو غیروں کے ہاں ہی رہ کر ان کے خیالات کو اپنی کرافٹنگ کے ذریعے بیان کرتے رہتے ہیں اور مایوسیوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں مگر حضرت قائداعظمؒ نے جو فرمایا تھا کہ پاکستان اسی روز معرض وجود میں آ گیا تھا جب یہاں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا ہم تو آج ماشاءاللہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں اربوں تک پہنچنے والے ہیں ایٹمی طاقت ہیں ہم اگر آج بھی اپنے نظریہ پر صدق دل سے عمل پیرا ہو جائیں تو یقیناً کوئی ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا مگر اس کے لئے ہمیں پھر سے مسلمان بن کر سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے ہمارے لئے ہی فرمایا تھا کہ     
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
مگر جب ہم ترکیب رسول ہاشمی سے نکل کر مختلف گروہوں طبقوں اور خانوں میں بٹ گئے تو اس وقت ہی ہم ان حالات کی طرف چل پڑے تھے جہاں اندھی کھائیوں اور خطرناک موڑوں کے سوا کچھ نہیں! حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ قائداعظم کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہم پھر سے صراط مستقیم پر آ سکتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ حضرت قائداعظم نے ہندوﺅں، انگریزوں، یونینسٹوں، ایرچونسٹوں اور کمیونسٹوں کی بھول بھلیوں میں کھوئی ہوئی قوم کو ایک مذہب (اسلام) ایک کتاب (قرآن مجید) پر سمجھ کر عمل کرنے کی راہ دکھائی تھی اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم جو اکثریت کی طرح نہ اردو میں بات کر سکتے تھے، نہ بنگالی اور سندھی میں بات کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں سیدھے راستے پر لگا دیا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان بن گیا اور ہم زبان، رنگ و نسل کے بکھیڑوں سے نکل کر پھر سے مسلمان ہو گئے تھے۔
قارئین! آخر میں بس یہی کہنا ہے میری ذاتی اور حقیقی رائے کے مطابق تو پاکستان کی اکثریت اسی راہ پر چل رہی ہے مگر قیادت کا دعویٰ کرنے والے کسی اور کی باتوں میں آئے ہوئے ہیں شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ ”یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے“ اور یہ کہ ”یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں جو غیروں نے پھیلائی ہیں.... جاتے جاتے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ ہمیں پھر سے اس تسبیح کا حصہ بننے کی بہت ضرورت ہے جس کے ہم ٹوٹے ہوئے موتی ہیں! اللہ کرے ہم پھر سے اسی تسبیح کا حصہ بن جائیں ورنہ گرے ہوئے بکھرے ہوئے تو کسی کے کام نہیں آ سکتے۔

ای پیپر-دی نیشن