ڈاکٹر قدیر خان کو قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے
ڈاکٹر عبدالقدیر خان بلاشبہ پاکستان کے ہیرو تسلیم کئے جاتے ہیں عوام انہیں دل و جان سے محسن پاکستان سمجھتے ہیں۔ ہر محب وطن پاکستانی کے دل میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ تاہم انہوں نے حال میں اپنی سیاسی جماعت ”تحریک تحفظ پاکستان“ قائم کرنے کے ٹھیک دو ہفتے بعد ایک روزنامہ کو ایک ایسا انٹرویو دیا ہے جس سے پاکستان کے مفادات کو شدید ترین دھچکا پہنچا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کا تازہ ترین موقف اس موضوع پر ان کے پرانے موقف سے یکسر مختلف ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے جولائی 2008ءمیں جو انٹرویو دئیے ان کی بنیاد پراس وقت بھی عالمی سطح پر ماہرین اور مختلف حکومتوں بشمول امریکہ اور یورپ نے یہ الزام عائد کئے تھے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جرم میں حکومت پاکستان اور پاک فوج برابر کی شریک ہے پھر انہوں نے4 فروری 2004ءکو ٹیلی ویژن پر ایک تحریری بیان پڑھتے ہوئے اقبال جرم کیا کہ وہ ایٹمی پھیلا¶ کی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں اور یہ کہ وہ اپنے اس جرم پر معافی کے خواستگار ہیں جو اگلے دنوں میں سرکاری طور پر انہیں دے دی گئی۔ جب تک جنرل پرویز مشرف صدر رہے ڈاکٹر قدیر خان اپنے اقبال جرم سے انحراف نہ کر سکے مگر مشرف کے جاتے ہی انہوں نے مختلف انٹرویوز میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ انہوں نے پاکستان کے عظیم تر مفاد میں جرم کی ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی اور یہ کہ ایسا کرنے سے انہیں اطمینان بھی حاصل ہوا تھا کیونکہ امریکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں پاکستان پر شدید ترین پابندیاں عائد کر دیتا۔ ایک اور ٹی وی انٹرویو میں ڈاکٹر قدیر نے اینکر کو یہ بھی کہا تھا کہ انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انہوں نے جنرل مشرف کا حکم نہ مانا تو ان کا حشر بھی ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس دھمکی پر وہ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ اب انہوں نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں جو کچھ کہا ہے خود ہی اپنے تمام پرانے دعو¶ں کی تردید کر دی ہے۔ اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر ایٹمی پھیلا¶ کا الزام لگانے کے علاوہ انہوں نے اور ایک مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا ہے کہ میاں نواز شریف غیر ضروری طور پر پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ حاصل کرتے ہیں حالانکہ وہ تو اس بات کے مخالف تھے کہ پاکستان ایٹمی دھماکے کرے۔ ڈاکٹر قدیر خان کی یہ بات درست لگتی ہے کہ میاں نواز شریف ایٹمی دھماکوں کے حق میں نہیں تھے حال ہی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مجید نظامی واحد ایڈیٹر تھے جنہوں نے نواز شریف سے کہا تھا کہ میاں صاحب ایٹمی دھماکہ کریں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ڈاکٹر قدیر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے میاں نواز شریف کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے ایٹمی دھماکے کرنے کی مخالفت کی تو وہ (ڈاکٹر قدیر) ذرائع ابلاغ کے ذریعے پاکستانی عوام کو بتا دیں گے کہ نواز شریف ایٹمی دھماکوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں اس پر نواز شریف نے مجبور ہو کر انہیں دھماکے کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ڈاکٹر قدیر کو ان کے الزام کا بھرپور جواب دے دیا اور واضح طور پر کہا ہے کہ ڈاکٹر جھوٹ بول رہے ہیں اس کے علاوہ ان دونوں سیاسی جماعتوں نے جواباً ڈاکٹر قدیر پر شدید الزامات بھی عائد کئے ہیں۔ ہم ان الزامات پر بحث کرنا نہیں چاہتے تاہم یہ ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے ایٹمی معاملات پر پاکستان کے مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام تو پہلے ہی امریکہ یورپ بھارت اور دیگر اسلام دشمن اور پاکستان دشمن قوتوں کی نظروں میں تنکے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ یہ قوتیں پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کو شدید ترین نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ امریکہ مغرب اور بھارت مسلسل پاکستان دشمنی میں یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان ایٹمی پھیلا¶ کے ذریعے دنیا کے امن کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ پاکستان کے دفاعی امور کے ماہرین کو یقین ہے کہ دشمن اگلے قدم کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے یہ حکم جاری کروانا چاہتا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کر دیا جائے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف عالمی سازشوں سے بچہ بچہ واقف ہے۔ ڈاکٹر خان سے زیادہ ان سازشوں سے کون واقف ہو گا۔ انہیں تو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا باپ کہا جاتا ہے، مگر افسوس کہ ڈاکٹر خان نے ان خطرات کا ادراک نہیں کیا اور پاکستان کو ایک نئے بحران میں دھکیل دیا۔ ڈاکٹر خان کو احتیاط سے کام لینا چاہئے اور انہیں اس قسم کے خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ انٹرویوز پر قطعاً نہیں دینے چاہئے جن سے ملکی مفادات کو نقصان پہنچے۔