• news
  • image

صدر زرداری کو استثنیٰ حاصل ہے‘ کارروائی نہیں کر سکتا‘ ملکی اداروں میں سیاسی مداخلت کے باعث کرپشن ہو رہی ہے : چیئرمین نیب

اسلام آباد (وقت نیوز) چیئرمین نیب ایڈمرل (ر) فصیح بخاری نے کہا ہے کہ کرپشن ایک دریا ہے جو چلا آ رہا ہے ہم کرپشن کا دریا روکنے کی بجائے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں، کرپشن کے خاتمے پر میرا نقطہ نظر سپریم کورٹ سے مختلف ہے، حکومت، سپریم کورٹ اور نیب کو احتساب میں کچھ مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ وقت نیوز کے پروگرام ”اپنا اپنا گریبان“ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملکی اداروں میں سیاسی مداخلت کے باعث کرپشن ہو رہی ہے، عدلیہ کے بعد بیوروکریسی کو بھی سیاسی مداخلت سے آزاد کرانا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ رینٹل پاور کیس میں کمپنیوں کو یقینی ضمانت حاصل تھی کرپشن کیوں اور کیسے ہوتی ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ رینٹل پاور ملزمان کے نام ای سی ایل میں نہ ڈالنے پر وزارت داخلہ کے ا ہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کر رہے ہیں، کوئی ملک سے فرار نہیں ہوا۔ کمپنیوں کو یقینی ضمانت کی وجہ سے اپنے لوگوں کو مجرم قرار دینا ملکی مفاد میں نہیں تھا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ این ایل سی سکینڈل کے حوالے سے آرمی چیف سے میری ملاقات ہوئی ہے، فوج کے سوا نیب کو تمام شہریوں کے خلاف تحقیقات کا اختیار ہے، آرمی چیف سے ملاقات میں ریکارڈ کے تبادلے پر اتفاق ہوا، بطور نیوی سربراہ میں نے ملک ریاض کے خلاف دو انکوائرایں کروائی تھیں جن میں وہ بے قصور پائے گئے، ہم نے بحریہ کا نام ملک ریاض کو بیچنے کے حوالے سے انکوائری کی ہے، ملک ریاض تین دہائیوں سے افواج پاکستان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب ملک ریاض کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی تھی، ڈی جی نیب نے بھی یہی کیا تھا جس پر کیس نیب نے لے لیا۔ ڈی ایچ اے، بحریہ ٹا¶ن کیس کو دوبارہ کھول دیا ہے، نیوی میں کرپشن کا خاتمہ میرا کام نہیں میں نے آگسٹا آبدوز کیس میں کرپشن کرنے والے اہلکاروں کی پشت پناہی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ نیب میں کام کرنے والے تمام افراد کی سکیورٹی کلیئرنس ہوتی ہے۔ بحریہ ٹا¶ن میں کام کرنے والے کچھ سابق فوجی افسران نے نیب میں بھی ملازمت کی، میرے آنے کے بعد نیب نے 23 ارب روپے کی وصولی کی اور 15 ارب روپے کی کرپشن کو روکا، میں سپریم کورٹ سے خوش ہوں ایس جی ایس کوٹیکنا کیس میں انکوائری کا ذمہ دار میں نہیں، صدر آصف علی زرداری کو استثنیٰ حاصل ہے، ان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا۔ شریک ملزمان کی رہائی کے خلاف اپیل نہیں کر سکتے کیونکہ وقت گذر گیا ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ وہ اپنا استعفیٰ ہر وقت اپنی جیب میں رکھتے ہیں۔ یہ بات غلط ہے کہ تقرری کے وقت اپنا استعفیٰ صدر کو دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم تبدیلی کی طرف گامزن ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کریں گے، ہماری عدلیہ سے کوئی لڑائی نہیں، کرپشن کے دریا کو روکنے میں وقت لگے گا۔ چیف جسٹس اکیلے کرپشن کو نہیں روک سکتے، اسے روکنے کے لئے ہر شہری کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ رینٹل پاور کیس کے ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈال رہے ہیں، انکوائری میں اگر رحمن ملک کا نام بھی آیا تو کارروائی کریں گے۔ سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ اور اسفند یار ولی کیس میں کہا کہ نیب نے بڑا پیسہ واپس لینا ہے، ہمارا مینڈیٹ کرپشن کا پیسہ واپس لینا ہے، ہم پلی بارگینگ کرتے ہیں اور پلی بارگینگ نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ ایک سوال پر کہا کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کے خلاف کارروائی بھی ان کا ادارہ کرتا ہے، ہمارے قانون میں نہیں اگر فوجی افسران سے کرپشن کے کیسز میں نیب نے تحقیات کرنی ہے تو قانون میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ ان کی بیٹی نے ارسلان افتخار کیس کی وجہ سے بحریہ ٹا¶ن سے استعفیٰ دیا تاکہ جانبداری کا تاثر سامنے نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض نے اس ملک کے لئے بہت کچھ کیا جن میں لوگوں کو روزگار کے مواقع اور غریبوں کی مدد کرنا شامل ہے۔ ان کے پاس کہاں سے پیسہ آیا؟ اس سوال پر فصیح بخاری نے کہا کہ یہ اہم ہے کہ اگر انہوں نے غیر قانونی طور پر کمایا تو پوچھا جا سکتا ہے۔ ڈی ایچ اے، بحریہ ٹا¶ن کیس کی انکوائری میں ا گر ثابت ہوا کہ ملک ریاض نے کرپشن کی تو نیب کرپشن کا پیسہ واپس لے گا۔ اس سوال پر کہ صدر زرداری نے آپ کو نیب کا چیئرمین کیوں بنایا۔ انہوں نے کہا کہ میری بھی خواہش تھی عدلیہ کی بحالی کے لئے ہم نے بھی سڑکوں پر مارچ کیا، وہ پہلا قدم تھا، دوسرا قدم بیوروکریسی کی کرپشن روکنا اور تیسرا قدم بیوروکریسی کو آزاد کرنا ہے، میرا وژن ملک سے کرپشن کا پیسہ واپس لانا تھا بطور چیئرمین نیب 40 ارب روپے واپس لئے جبکہ 12 سال میں 60 بلین ملے ہیں، سپریم کورٹ کیسز کی ہر دو ہفتے بعد رپورٹ مانگتی ہے جس سے انکوائری متاثر ہوتی ہے۔ نیب کے پاس صرف 130 تحقیقاتی افسر پورے پاکستان میں ہیں جو سپریم کورٹ کیسز پر لگے ہوئے ہیں جو تحقیقات رپورٹس اور عدالت میں پیش ہوتے ہیں، تین سو ساٹھ افسران نیب میں بھرتی کر رہے ہیں جس میں ایک سال لگے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صدارت کے منصب سے ہٹنے کے بعد زرداری کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مشرف کی بغاوت روکنا میرا کام نہیں تھا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن