علم تھا مشرف حکومت کا تختہ الٹنے والے ہیں لیکن خاموش رہا : چیئرمین نیٹ
اسلام آباد (وقت نیوز) چیئرمین نیب ایڈمرل (ر) فصیح بخاری نے کہا ہے کہ نواز شریف دور میں حکومت اور فوج میں کافی مسائل پیدا ہو گئے تھے، مجھے علم تھا کہ پرویز مشرف حکومت کا تختہ الٹنے والا ہے لیکن میں خاموش رہا۔ وقت نیوز کے پروگرام ”اپنا اپنا گریبان“ کے دوسرے حصے میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیوی چیف کا عہدہ سنبھالا تو کچھ مسائل چلے آ رہے تھے، میرا موقف تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہونا چاہئیں، بھارت کے ساتھ معاہدہ لاہور بہت بڑی کامیابی تھی، پرویز مشرف کی سوچ تھی کہ کشمیر میں آپریشن کیا جائے، معلوم نہیں کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو آپریشن کا علم تھا یا نہیں۔ لائن آف کنٹرول پر ایکشن شروع ہونے کے بعد بریفنگ دی گئی۔ نواز شریف کو کرگل آپریشن کا علم ہوا کہ نتیجہ خیز نہیں تو انہوں نے سیاسی حل نکالنے کی کوشش کی۔ میں نے نواز شریف کو مشورہ دیا کہ ایٹمی دھماکوں کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک کریں کیونکہ ایٹمی دھماکے کرنے سے پہلے پاکستان کو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہوا۔ کرگل آپریشن کے حوالے سے جی ایچ کیو میں بریفنگ ہوئی جس میں نواز شریف موجود نہیں تھے۔ آرمی کی بریفنگ دی۔ پرویز مشرف نے بریفنگ میں شرکت کیلئے مجھے ٹیلی فون کیا۔ میں نے بھی نواز شریف کو نہیں بتایا۔ بریفنگ سے پہلے ایکشن شروع ہو چکا تھا۔ نواز شریف نے بعد میں کہا کہ مجھے ہر ہفتے صورتحال سے آگاہ رکھا جائے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ نتیجہ خیز آپریشن نہیں ہوا تو وہ امریکہ گئے۔ دوست ممالک نے بھی آپریشن روکنے کا مشورہ دیا۔ اس سوال پر کہ بحریہ نے بھارت کے ساتھ لڑائی کی تیاری کر رکھی تھی؟ فصیح بخاری نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ مون سون پیریڈ کے بعد بھارت بھرپور ایکشن کرے گا۔ میں نے کہا تھا کہ لڑائی کے پہلے دو ہفتے میں ہمیں سپلائیز لانے میں مشکل ہو گی، دو ہفتے بعد ہم بھارتی حکمت عملی دیکھ کر جواب دینگے لیکن ہم چاہتے تھے کہ وہاں تک نوبت نہ آئے لیکن اگر نوبت آئی تو پھر لڑیں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر بلیک میل ہو رہے تھے، میں نے نواز شریف سے کہا کہ ہم دنیا کو یہ بتائیں کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا۔ اگر دنیا چاہتی ہے کہ ہم دھماکے نہ کریں تو مسئلہ کشمیر کو حل کرے۔ نواز شریف نے بھی سیاسی فائدے کیلئے کچھ تاخیر کی لیکن نہ ہو سکا، ایٹمی معاملہ کشمیر کے ساتھ منسلک ہونا چاہئے تھا، پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ قانونی طور پر وزیر دفاع ہی وزارت دفاع کا باس ہے۔ اسے یہ اختیار ہے کہ وہ کسی فوج کے سربراہ کو طلب کر کے کسی معاملے میں وضاحت مانگ سکتا ہے تاہم یہ حالات کے اوپر منحصر ہے۔ لڑائی کے حوالے سے جنرل سٹاف ہیڈ کوارٹر میں پلاننگ ہونی چاہئے جو نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار ہوتی ہے۔ کرگل آپریشن میں ایسا ہوا کہ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور ڈی سی سی کو نہیں بتایا گیا جنرل کیانی بہت پرہیز کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ماضی سے سابق سیکھا ہے۔ تاہم مجھے نہیں پتہ کہ وہ وزیر دفاع اور چیف آف سٹاف کمیٹی کو آن بورڈ رکھتے ہیں کہ نہیں۔ ان کی سوچ مثبت ہے۔ جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دیگر ایشوز کی وجہ سے ایسا ہوا لیکن ایسا ہونا نہیں چاہئے۔ تاہم بعض حالات میں ایسا ہونا چاہئے۔ وکلاءتحریک میں نعرہ بازی اس لئے کی کیونکہ پرویز مشرف کے خلاف غصہ تھا اور اصول کی بھی بات تھی۔ جب پرویز مشرف نے ایمرجنسی ڈیکلیئر کی میں نے حمایت نہیں کی اور بیانات دیے۔ اس لئے عدلیہ کی بحالی کے لئے وکلاءتحریک کا ساتھ دیا اور سڑکوں پر آئے۔ ججز کے خلاف کارروائی کے حوالے سے کہا کہ شکایات آ رہی ہیں لیکن کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تحقیقات کر رہے ہیں۔ این آر او صرف دو افراد کے درمیان تھا۔ جنرل پبلک کے لئے انہیں کالعدم قرار دینے سے پہلے سپریم کورٹ نے سیاستدانوں کو موقع دیا کہ اسے قانون بنائیں۔ وہ موقع ہم نے گنوا دیا۔ میں سپریم کورٹ فیصلے کی حمایت کرتا ہوں۔ تمام سیاسی جماعتیں اس میں شامل ہونی چاہئیں تھیں۔ صدر زرداری کے حوالے سے کیسز کے سوال پر کہا کہ معاملات عدالت میں ہیں جو فیصلہ کرے گی۔ نیب خود پراسیکیوشن نہیں کرتی۔ حکومت اور صدر زرداری سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ نیب کو ٹھیک کر سکوں۔ صدر زرداری اس حوالے سے سپورٹ کر رہے ہیں۔ صدر سے آخری ملاقات میں سوئس کیسز کے حوالے سے بات نہیں ہوئی بلکہ نیب میں تعیناتیوں کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ ان کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات نہیں وہ حکومت نہیں چلا رہے تاہم انہوں نے نیب میں تعیناتیوں کے حوالے سے تعاون کا کہا۔ راجہ پرویز اشرف کے حوالے سے کہا کہ رینٹل پاور کیس میں وہ ملزم ہیں لیکن ہم نے پہلے پیسہ واپس لینا تھا اب تحقیقات کی جائیں گی۔ اگر راجہ پرویز اشرف نے پیسہ دینا ہے تو ہم لیں گے۔ راجہ پرویز اشرف کے بینک اکاﺅنٹس کی نگرانی کے حوالے سے سوال کا جواب دینے سے گریز کرتے انہوں نے کہا کہ وہ لیک آﺅٹ نہیں کر سکتے۔ راجہ پرویز اشرف کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے بھجوایا لیکن نہ ڈالنے پر وزارت داخلہ افسران کے خلاف کارورائی میں میرا موقف ہے کہ ان کا نام ای سی ایل میں آئے۔ راجہ پرویز اشرف کو گرفتار کرنے کے سوال پر کہا کہ حکومت کو بند نہیں کر سکتا حکومت چلنی چاہئے۔ نیب کی طرف سے نواز شریف کے خلاف پرانے ریفرنسز کھولنے کے سوال پر کہا کہ نواز اپنے کیسز کو ختم کرانے کیلئے ہائیکورٹ گئے لیکن کیسز ختم نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ لوئر کورٹ میں چل رہے تھے۔ لوئر کورٹ نے کیسز کھولنے کا کہا۔ میں نے کہا کہ آپ نے بند کئے خود کھولیں۔ دباﺅ بڑھتا رہا، سیاستدان بھی میرے خلاف بیانات دے رہے تھے جس پر کیسز کھولے، عدالت فیصلہ کرے گی کہ کیسز درست تھے یا نہیں، میں نیب کا قبلہ درست کرنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس ریٹائر ہو جاتے ہیں یا میرا عہدہ نہیں رہتا، میں کوشش کر رہا ہوں کہ نیب درست کام کرے۔ پرویز مشرف نے نیب کو سیاسی طور پر استعمال کیا، ہمارا مقصد کرپشن کو روکنا ہے۔ افواج پاکستان اور سیاست میں کرپٹ مچھلیوں کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کیلئے ادارے کو درست کرنا ضروری ہے۔