ان کا رومانس لال حویلی والے شیخ رشید سے ہے
مصنف لال خاں کی بات مان لیں تو ساٹھ کی دہائی میں ملک سوشلسٹ انقلاب کیلئے تیار کھڑا تھا کہ ذہین فطین ذوالفقار علی بھٹو میدان میں اترے اور انقلاب سمیت سب کچھ اچک کر لے گئے۔ لال خاں نے اپنی کتاب”پاکستان کی اصل کہانی“ میں 1968-69 کا انقلاب بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسلامی سوشلزم کا نعرہ گھڑنے والے بھٹو نے یہ بات کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ اس نے اسطرح سوشلزم کا راستہ روک دیا ہے۔ سچی بات تو یوں ہے کہ بائیں بازو والوں نے قیام پاکستان کے پہلے روز ہی اپنے عدم اعتماد کا اظہار کر دیا تھا۔فیض احمد فیض، صبح آزادی، کے نام سے اپنی نظم یوں شروع کرتے ہیں۔ یہ بات نوٹ کرنے والی ہے کہ فیض اپنی شاعری کی دوسری کتاب”دست صبا“ میں شامل کی گئی اس نظم کی تاریخ نزول لکھنا نہیں بھولے اور یہ ہے اگست 1947ءیہ پاکستان کی پیدائش کا پہلا مہینہ ہے
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
اس خوبصورت درد انگیز نظم کا اختتام یوں ہوتا ہے:
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کو وہ منزل ابھی نہیں آئی
کانگریس کی صف اول کی قیادت میں کوئی جاگیردار نہیں تھا۔ شاید کوئی اکا دکا ہو بھی اور کوشش کرکے آپ کوئی ایک آدھ نام ڈھونڈنے میں کامیاب ہو بھی جائیں۔ بہرحال وہ اپنی آزادی کے ابتدائی ایام میں ہی حد ملکیت طے کر کے جاگیرداری سے بھی آزادی حاصل کر گئے۔ مشرقی پاکستان مسلم لیگ نے بھی آزادی کے بعد پہلی فرصت ہی میں جاگیرداری کے خلاف قرارداد منظور کر دی۔ بصارت اور بصیرت رکھنے والے انہی حروف کو سقوط ڈھاکہ کی خشت اول قرار دیتے ہیں پھر ”جواب آں غزل“ کے طور پر مغربی پاکستان میں انجمن تحفظ حقوق کاشتکاراں تحت شریعت بن گئی۔ کاشتکاروں کی اس تنظیم کے روح رواں نوابزادہ نصراللہ خان اور پیر نو بہار شاہ تھے۔ حالات کی ستم ظریفی کے تحت جاگیردار اپنے تئیں کاشتکار کہلانے پر مجبور پائے گئے۔ ہماری پہلی زرعی اصلاحات ایوب دور میں کی گئیں۔ ان کا دوسرا اور قدرے بہتر ایڈیشن بھٹو دور میں آیا پھر جنرل ضیاءالحق کے ”کھرے“ اسلامی دور میں ان تمام ترقی پسندانہ اقدامات پر خط تنسیخ پھیر دیا گیا۔ اسی دور کی ایک دلچسپ بات سنیں۔ بابائے سوشلزم شیخ رشید روایت کرتے ہیں سابق صدر پاکستان فاروق لغاری چچا عطاءمحمد لغاری بھی ان کی طرح ہی پابند صوم و صلٰوة قسم کا آدمی تھا۔ اس کا بھی مسجد میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ یہ ایک روز خطبہ جمعہ کے بعد اٹھ کھڑا ہوا اور نمازیوں سے کہنے لگا۔ ”اے لوگو! میں تمہیں ایک خوشخبری سنانا چاہتا ہوں۔ پیپلزپارٹی نے میری جو زمین چھین لی تھی۔ وہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اورآپ کی دعاﺅں کے طفیل مجھے واپس مل گئی ہے“ مسجد میں بیٹھے شریعت کورٹ کے اس فیصلے سے دوبارہ بے مالک بن جانے والے ہاری ساحر لدھیانوی کی طرح ہی سوچ رہے تھے
فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکن
فطرت کسی بے بس کا سہارا نہیں ہوتی
پھر 11 مارچ 2003ء کو اس وقت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم کو یہ خوشخبری سنا دی۔ ”اب کسی قسم کی زرعی اصلاحات نہیں کی جائیں گی“ دیگر سرکاری اعلانات کے برعکس یہ اعلان سینٹ پرسینٹ سچ ثابت ہوا۔ ان دنوں محمد رفیق تارڑ سابق صدر پاکستان بالکل چپ سے ہیں لیکن پانچ سات برس قبل ماجرا یوں نہیں تھا۔ ان دنوں انہوں نے جاگیرداروں کے ”مدینة الاولیا“ ملتان میں روزنامہ ”نوائے وقت“ کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ”زمین کوجس طرح مڈل کلاس طبقے کے پاﺅں کے نیچے سرکایا جا رہا ہے، یہ ایک المیہ ہے۔ پاکستان میں آئندہ جنگ صوبوں اور وفاق کے درمیان نہیں ہو گی۔ یہ جنگ طبقاتی جنگ ہو گی۔ یہ جنگ بے مالک لوگوں اور زمین کی غیر محدود ملکیت رکھنے والے لوگوں کے درمیان ہو گی“۔ آج پاکستان میں صرف شہری علاقوں کی سیاسی جماعت ایم کیو ایم ہی جاگیر داری کے خلاف ہے۔ ہمیں تبدیلی کے علمبردار عمران خان سے بڑی امیدیں ہیں لیکن کیا جہانگیر ترین اینڈ کمپنی تحریک انصاف کو اس ممنوعہ راستہ کی طرف جانے دے گی؟ پھر تحریک انصاف میں کوئی بابائے سوشلزم شیخ رشید بھی نہیں۔ ان کا رومانس تو لال حویلی والے شیخ رشید سے ہے۔
پس تحریر: درویش منش مولانا زاہد الراشدی کو چاند گاڑی پر بیٹھے دیکھ کر حسرت موہانی کی یاد آجاتی ہے۔ آپ ان دنوں گوجرانوالہ اوورہیڈ برج کی طوالت کی مخالفت میں ایک مہم میں جتے ہوئے ہیں۔ وہ الزام لگا رہے ہیں کہ ایک مقامی سیاستدان کا پلازہ اور پٹرول پمپ بچانے کےلئے اوورہیڈ برج کی طوالت کو گھٹایا جا رہا ہے۔ حضرت مولانا کیا جانیں، پٹرول پمپوں اور پلازوں کی محبت اور افادیت۔ یہ بس یونہی سادہ لوحی میں واویلا مچائے جا رہے ہیں۔ ہماری ان سے مودبانہ درخواست ہے کہ آپ بس اللہ اللہ کیا کریں، عوامی خدمت کا کام صرف سیاستدانوں کے ذمہ ہی رہنے دیں۔ رہے ہم شہری ، ہمارا کیا ہے؟ ہم بس یونہی رودھو کر جی لیں گے۔