نظر بد دُور
روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا یکایک دورہ پاکستان ملتوی ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے جسے چپ سادھ کر محاورہ کے مطابق قالین کے نیچے دھکیل کر چھپایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام آباد میں منعقد ہونے والی چار ملکی سربراہی کانفرنس بھی مو¿خر کر دی گئی ہے۔ 2 اکتوبر سے شروع ہونے والی کانفرنس میں پاکستان‘ روس‘ تاجکستان اور افغانستان کے سربراہوں نے شرکت کرنا تھی۔ اس کانفرنس کی جیو پولیٹیکل اور جیو سٹرٹیجک اہمیت پر ایک پورا کالم لکھا جا سکتا ہے کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں اس کانفرنس کی کامیابی کے کتنے ہمہ گیر اور MULTI DIMENTIONAL نتائج برآمد ہو سکتے تھے۔ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا کہ اس کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد اور روس کے صدر کی اس میں بہ نفس نفیس شرکت نہ صرف پاک روس تعلقات بلکہ اس پورے خطے اور گلوبل سطح پر طاقت کے توازن میں تاریخ ساز تبدیلی کا ایک نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی سوویت یونین یا روس کے صدرکا اسلام آباد کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اور اس کے فوراً بعد افواج پاکستان کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی کا ماسکو کے دورہ اور اپنے ہم منصب روسی افواج کے سپہ سالار کے علاوہ روس کے وزیر دفاع‘ وزیراعظم کے علاوہ صدر پیوٹن سے ملاقات کا شیڈول بھی طے ہو چکا تھا۔ کسی بھی پاکستان کے سپہ سالار کا یہ پہلا دورہ روس ہونے کے باعث دونوں ممالک کے درمیان دفاع اور سکیورٹی کے معاملات پر اعلیٰ ترین سطح کی گزشتہ چھ دہائیوں میں پہلی سنجیدہ کاوش ہے جس کے دوررس نتائج برآمد ہونے کے قوی امکانات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔یہ سب کچھ کوئی یکایک تو بٹن دبانے سے طے نہیں ہو سکتا۔ ایسے تاریخ ساز دوروں کو آخری شکل دینے کیلئے نہ صرف کئی مہینے بلکہ کئی سال اعلیٰ ترین سفارتکاری اور متعلقہ ممالک کے سینئر ترین مشیروں اور عہدیداروں کی ان تھک اور خاموش کاوش بار آور ہوکر جب آخری مراحل کے حساس ترین تقاضے مکمل کر لیتے ہیں تو پھر سربراہی ملاقاتوں کی تاریخیں اور ایجنڈا کا اعلان کیا جاتا ہے۔ بعض امور اتنے نازک اور حساس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ وہ صرف سربراہان مملکت کی ذاتی ون آن ون ملاقاتوں تک محدود رہتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب ایک طرف صدر پیوٹن کا دورہ اسلام آباد کی سب تیاریاں اور تقاریب کی تقاریب کے دعوت نامے اور باہمی ہونے والے AGREEMENT کے ڈرافٹ اور سربراہی کانفرنس پر صدارتی خطاب کو آخری شکل دی جا چکی تھی اور دوسری طرف چار ملکی سربراہی کانفرنس کے تمام انتظامات مکمل ہو چکے تھے۔ اچانک صدر آصف علی زرداری کو روسی صدر کا ایک خط موصول ہوا جس کا ماحاصل یہ تھا کہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر صدر ولادی میر پیوٹن کو دورہ اسلام آباد ملتوی کرنا پڑا ہے۔ دیگر سفارتی اور روایتی تفصیلات قارئین اخبارات میں پڑھ چکے ہیں۔ صدر زرداری کو دورہ روس کی دعوت دیتے ہوئے ان الفاظ میں اپنی گرمجوشی کا اظہارکیا کہ ”ماسکو میں آپ کا استقبال کر کے مجھے خوشی ہوگی“ جس پر راقم کو اچانک مرزا غالب کا یہ شعر یاد آیا
اسد خوشی سے میرے ہاتھ پاﺅں پھول گئے
کہا جو اس نے ذرا میرے پاﺅں داب تو دے
مزید اشک پوشی کیلئے پیوٹن نے اپنے محبت نامہ میں یہ خوشخبری بھی سنائی کہ ”پاکستان کے ساتھ دیگر شعبوں کے علاوہ اقتصادی تعاون کو بھی روس فروغ دینا چاہتا ہے۔“ اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے مطابق روسی صدرکا دورہ ملتوی ہونے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ بلکہ روسی سفارتخانہ نے اس مختصر بیان پر اکتفا کیا کہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر صدر ولادی میر پیوٹن کو دورہ اسلام آباد ملتوی کرنا پڑا ہے۔ پاکستان‘ روس‘ تاجکستان اور افغانستان سربراہی کانفرنس کی نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ دفتر خارجہ اسلام آباد کے مطابق جنرل اشفاق پرویزکیانی طے شدہ شیڈول کے مطابق روس کا دورہ کریں گے۔ اگرچہ روس اور پاکستان نے صدر پیوٹن کا دورہ ملتوی ہونے پر فی الوقت چپ سادہ رکھی ہے لیکن قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ بعض انگریزی اور اردو اخباروں نے صفحہ اول کی سرخیاں لگائیں کہ واشنگٹن کے اکسانے پر دہلی نے ماسکو پر دباﺅ ڈال کر پیوٹن کا دورہ منسوخ کروایا ہے۔ میں اس دلیل پر ہنس دوں یا ماتم کروں کہ عالمی سطح پر منجھا ہوا ماہر انٹیلی جنس چیف دو دفعہ ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز یعنی وزیراعظم اور صدر کی مسند پر باری باری بیٹھ کر اپنے ہمعصروں کی رگ رگ پرگرفت رکھنے والی شخصیت کیا موم کی ناک ہے کہ واشنگٹن اور دہلی پیوٹن کو تگنی کے ناچ کا کھیل بنا سکیں۔ بھارت کے ساتھ روس کے سیاسی دفاعی تجارتی تعلقات کے ہر پہلو سے روسی حکومت بخوبی آگاہ ہے۔ اسی طرح واشنگٹن خود یا دہلی کے ذریعے ریجنل یا گلوبل سطح پر کیاکھیل کھیلنا چاہتا ہے پیوٹن اس سے بے خبر نہیں۔ من خوب می شناسم یاران پارسا را۔ اس لئے بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ بھارت پاکستان کے بارے میں کیا ارادے اور کیا نیت رکھتا ہے پیوٹن پر پوری طرح آشکارا ہے۔ امریکہ کے ذریعے ایشیا میں اور عالمی سطح پر کیا جیو سٹرٹیجک قریب المیعاد اور طویل المیعاد ہدف ہیں۔ روس ان سے پوری طرح باخبر اور ہوشیار ہے۔ صدر پیوٹن کی اسلام آباد کے ممکنہ دورے اور چار ملکی سربراہی کانفرنس کی تیاریاں روز اول کے ابتدائی مراحل سے لیکر تازہ ترین ایجنڈے کے بارے میں روسی انٹیلی جنس اپنی قیادت کو پوری رپورٹیں مہیا کرتی رہی ہیں۔ ان تمام اطلاعات تازہ ترین حقائق اور ماہرین کی طرف سے ان کے مکمل جائزہ اور احاطہ کرنے کے بعد کہ اسلام آباد کا دورہ تاریخ کے اس موڑ پر روس کے جیو سٹرٹیجک مفاد میںکس حد تک مثبت کردارکا حامل ہو سکتا ہے۔ پیوٹن کی کابینہ اور پاکستان کے موجودہ اور مستقبل کے حالات کی روسی ماہرین کی پشین گوئی اور سفارشات کے بعد روسی صدر نے اپنے ذاتی طویل تجزبہ کے ترازو میں جانچ پڑتال کے بعد دو اور تین اکتوبر کو دورہ پاکستان اور چار ملکی سربراہی کانفرنس میں شرکت کا تاریخ ساز فیصلہ کیا ہو گا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر اچانک یکایک کیا ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں پیوٹن کو اپنا سوچا سمجھا اسلام آباد دورہ کا پروگرام اور چار ملکی سربراہی کانفرنس میں شرکت کو صدر زرداری کے نام فوری ذاتی خط کے ذریعے منسوخ یا ملتوی کرنا پڑا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ سے تعلقات میں پاکستان کی نئی گرمجوشی دورہ کا التواءکا باعث بنی ہے۔ بعض مبصرین واشنگٹن اور نیویارک سے یہ خبریں دے رہے ہیں کہ پاکستان کی سنگین اور بگڑتی ہوئی اکنامک حالت افغانستان میں بگڑتے ہوئے حالات امریکہ اور پاکستان میں انتخابات کی گہما گہمی پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنج‘ بلوچستان کی بحرانی کیفیت ان سب نے مل جل کر صدر زرداری اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی طرف سے 50 کی دہائی کے دیرینہ قریب ترین اتحادی ہونے کی یادوں کو خواب سے نکل کر حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ہیلری کلنٹن اور صدر اوبامہ نے جناب آصف علی زرداری کو نیو یارک میں عالمی پریس کے سامنے MY FRIEND ZARDARI کے القاب سے نوازا۔ اس کے پیچھے کیا راز کی باتیں ہوئیںہم تو نہیں جانتے۔ لیکن نہ جانے روسی انٹیلی جنس نے پیوٹن کے کان میں کیا سرگوشی ڈالی ہو۔ کسی کی نظربد ضرور لگی ہے جس کے باعث منظرنامہ اچانک بدل گیا ہے۔ ماسوائے اس کے جنرل اشفاق پرویز کیانی کا دورہ ماسکو بھونچال سے بچ کر قائم و دائم ہے۔ اس دورہ سے روشنی اور امید کے نئے خوشگوار فوارے پھوٹنے کی امیدیں وابستہ ہیں۔