بلدیاتی آرڈیننس منظور ‘ اسمبلی میں شدید ہنگامہ ‘ کئی شہروں میں ہڑتال جھڑپیں‘ پولیس فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق
کراچی (وقائع نگار + نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ءکو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے زبردست احتجاج، شدید ہنگامہ کے دوران صرف 5 منٹ میں کسی بحث کے بغیر کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اپوزیشن ارکان نے آرڈیننس کی کاپیاں پھاڑ دیں اور سندھ کو تقسیم نہ کرو کے نعرے لگائے۔ آرڈیننس کی منظوری کے خلاف سندھ بچا¶ کمیٹی اور قومیت پرست جماعتوں کی کال پر اندرون سندھ کے مختلف شہروں میں شٹر ڈا¶ن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔ نواب شاہ میں مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کر دی جس سے جسقم کا مقامی عہدیدار علی رضا جاںبحق ہو گیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے شیلنگ بھی کی جبکہ جھڑپ میں 4 پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد زخمی ہو گئے اور مشتعل مظاہرین نے ایئرپورٹ تھانے پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی جس سے تھانے میں کھڑی موٹر سائیکل اور سامان جل کر خاکستر ہو گیا۔ بعدازاں رینجرز کو طلب کر لیا گیا۔ سندھ بچا¶ کمیٹی نے کارکن کی ہلاکت کے خلاف آج نواب شاہ میں ہڑتال، ضلع میں 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ سکھر میں ایک بس اور گھارو شہر میں آئل ٹینکر کو آگ لگا دی گئی۔ لاڑکانہ میں صوبائی وزیر قانون ایاز سومرو کے گھر کے باہر چوڑیاں لٹکا دی گئیں اور دادو میں وزیر تعلیم سندھ پیر مظہر الحق کے گھر کے قریب کریکر دھماکہ ہوا ہے جس کے بعد ارکان اسمبلی کے گھروں پر سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے جبکہ عوامی تحریک کے سربراہ ایاز پلیجو نے بھوک ہڑتال کر دی ہے اور سندھ میں اپوزیشن کی پانچ جماعتوں کے 8 وزرا اور مشیروں نے گورنر سندھ کو استعفے پیش کر دئیے، استعفے گورنر سندھ کے ملٹری سیکرٹری نے وصول کئے۔ سندھ اسمبلی کے 149 ارکان نے آرڈیننس کی حمایت جبکہ 18 نے مخالفت کی۔ 149 ارکان میں 92 ارکان پی پی کے جبکہ 51 ارکان ایم کیو ایم کے شامل ہیں۔ آرڈیننس کی کاپیاں پھاڑنے والوں میں مسلم لیگ فنکشنل، اے این پی اور این پی پی کے ارکان شامل ہیں۔ اس سے قبل فنکشنل لیگ، اے این پی، (ق) لیگ، این پی پی کے ارکان اسمبلی نے حکومتی نشستوں پر بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ جام مدد علی کا کہنا تھا درخواست جمع کرانے کے باوجود اپوزیشن بنچ الاٹ نہیں کئے گئے۔ سپیکر سندھ اسمبلی کا کہنا تھا وزرا کی حیثیت سے آپ کے استعفے منظور نہیں ہوئے، وزرا کے علاوہ دیگر ارکان اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھ سکتے ہیں۔ استعفے کے نوٹیفکیشن تک نشستیں الاٹ نہیں کر سکتا۔ قبل ازیں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن ارکان بازو¶ں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ایوان میں داخل ہوئے۔ این این آئی کے مطابق سپیکر نے اعلان کیا آرڈیننس کی مخالفت کرنے والے ارکان چونکہ اپنی نشستوں پر نہیں تھے لہٰذا ان کی مخالفت اسمبلی کی کارروائی کا حصہ نہیں ہے اور بل اتفاق رائے سے منظور ہو گیا ہے۔ بعدازاں سندھ اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ نیا بلدیاتی آرڈیننس یعنی سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کا تعارف اور اس پر بحث اجلاس کی کارروائی میں شامل نہیں تھی۔ وزیر قانون ایاز سومرو نے اسے ضمنی ایجنڈے کے طور پر شامل کرنے کے لئے ایوان کی اجازت حاصل کی اور زبردست شور شرابے میں یہ آرڈیننس منظور کر لیا گیا۔ آرڈیننس پر رائے شماری کے دوران ایم کیو ایم کے ارکان بلند آواز سے ”ہاں“ کہتے رہے جبکہ پیپلز پارٹی کے ارکان میں ایم کیو ایم کے ارکان کی طرح جوش و خروش نہیں تھا۔ ایم کیو ایم کے ارکان کے چہروں سے خوشی جھلک رہی تھی اور پیپلز پارٹی کے ارکان کے رویوں سے ان کی مجبوری کا اظہار ہورہا تھا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے 14 ارکان اسمبلی بوجوہ اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے تھے جبکہ 2 صوبائی وزرا صادق علی میمن اور سسی پلیجو نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی)، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ہم خیال اور (ق) لیگ کے ایک منحرف رکن سمیت 13 ارکان اپوزیشن کی نشستیں نہ ملنے پر احتجاجاً زمین پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور آرڈیننس کی منظوری کے دوران انہوں نے وہیں کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔ وہ سندھ کی تقسیم نامنظور، سندھ دشمن آرڈیننس نامنظور، آرڈیننس کا جو یار ہے غدار ہے، غدار ہے، شرم کرو، ماں کا سودا نہ کرو، سندھ سے غداری نہ کرو اور دیگر نعرے لگاتے رہے۔ انہوں نے آرڈیننس اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ آرڈیننس کی منظوری کے بعد یہ ارکان ”اندھا قانون نامنظور اور سندھ کی تقسیم نامنظور“ کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔ سندھ اسمبلی کی جانب سے متنازعہ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی منظوری کے بعد سیاسی صورتحال کشیدہ ہو گئی کراچی سمیت مختلف علاقوں میں تشدد شروع ہو گیا اور گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی اور سندھ اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج ہوا۔ آئی این پی کے مطابق قومیت پرست جماعتوں کی کال پر اندرون سندھ کئی شہروں میں مکمل ہڑتال رہی۔ سکھر، حیدرآباد، جیکب آباد، بدین، ٹھٹھہ، نواب شاہ، سکھر میں تعلیمی اداے، پٹرول پمپ اور کاروباری و تجارتی مراکز بند رہے۔ سندھ یونائیٹڈ پارٹی، ترقی پسند پارٹی، جئے سندھ و قومی محاذ، فنکشنل لیگ، نواز لیگ کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرہ کر کے ٹھٹھہ اور بائی پاس روڈ پر الگ الگ مظاہرے کر کے دھرنے دیئے اور بلدیاتی آرڈیننس کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا، جسقم کے مرکزی جنرل سیکرٹری حیدر شاہد کی قیادت میں مکلی روڈ پر سینکڑوں کارکن دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔