• news

بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا جائے: آئی ایم ایف کا مطالبہ

کراچی + اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + نیوز ایجنسیاں + نوائے وقت نیوز) پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو 10 کروڑ 94 لاکھ ڈالر مالیت کی پانچویں قسط پیر کو ادا کر دی ہے۔ وزارت خزانہ ذرائع کے مطابق پاکستان نے سٹینڈ بائی قرض کی پانچویں قسط آئی ایم ایف کو ادا کر دی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے اس سے قبل 24 اگست کو 39 کروڑ 72 لاکھ ڈالر کی چوتھی قسط آئی ایم ایف کو ادا کی تھی جبکہ مئی میں 39 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادا کئے گئے تھے۔ رواں سال فروری میں پاکستان نے آئی ایم ایف کو 40 کروڑ 10 لاکھ ڈالر مالیت کی پہلی قسط ادا کی تھی۔ یکم اکتوبر کو پانچویں قسط کی ادائیگی کے بعد پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو واپس کئے جانے والے قرضے کا مالی حجم ایک ارب 39 کروڑ 94 لاکھ ڈالر ہو گیا ہے۔ بنکاری ذرائع کے مطابق پانچویں قسط کا مالی حجم زیادہ نہ ہونے کے باعث ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنے کا امکان نہیں ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کے وفد نے حکومت پاکستان کے ساتھ قرضوں کی ادائیگی کے معاملے پر مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد نے چیف مشن جیفری فرینکس کی قیادت میں وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں حکومتی اقتصادی ٹیم سے وزارت خزانہ میں مذاکرات کئے۔ علاوہ ازیں آئی ایم ایف نے ایک بار پھر پاکستان پر ز ور دیا ہے کہ جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کو بہتر بنانے کے لئے ٹیکس نظام کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سے ملاقات کے موقع پر پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ ٹیم نے کہا کہ جی ڈی پی ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے کم ہے جو خطرناک ہے۔ حکام کے مطابق آئی ایم ایف نے ایک بار پھر صنعت پر سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنے اور اس کا دائرہ سروسز سیکٹر تک بھی بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ مالیاتی ادارے کی ٹیم نے حکومت سے کہا کہ بجلی کی قیمت بڑھائی جائے اور پاور سیکٹر میں اصلاحات کی جائیں جبکہ وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کو 10 کروڑ ڈالر واپس کر دئیے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو قرضے کی واپسی سے کوئی مسئلہ نہیں۔ آئی ایم ایف سے نیا پروگرام حاصل کرنے پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ آئی ایم ایف سے حالیہ بات چیت معمول کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی 4 فیصد سے بڑھائی جائیگی۔ علاوہ ازیں وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈونرز کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں کی بہتر نگرانی اور م¶ثر رابطہ کی ضرورت ہے، ترقی کے ثمرات ملک کے دور دراز اور محروم علاقوں تک پہنچانا چاہتے ہیں، معاشی تیزی کے لئے لوگوں کو روزگار کے مواقع دینے ہوں گے، ملک میں بےروزگاری ہے، اقتصادی تیزی کے لئے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ وہ ڈی 10 اجلاس سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ ”ڈی 10“ کا اجلاس پیر کو اسلام آباد میں ہوا جس میں عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک، امریکہ، جاپان، کینیڈا، چین، برطانیہ، جرمنی، فرانس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے نمائندگان شریک ہوئے۔ اجلاس میں ترقیاتی عمل میں حکومت پاکستان کے کردار کو مزید مستحکم بنانے، مشترکہ بجٹ سازی اور خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے اور معلومات کے تبادلہ پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ اپنے افتتاحی خطاب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ترقیاتی شراکت داروں کے پروگرام کو بہتر انداز میں چلانے اور ان کی نگرانی اور تجزیہ کے م¶ثر طریقہ کار پر مثبت بات چیت ہوئی ہے، ترقی کے ثمرات ملک کے دور دراز اور محروم علاقوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری خزانہ عبدالواجد رانا نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے ساتھ ساتھ انہیں مالیاتی اختیارات اور وسائل بھی دئیے گئے ہیں جن کو ری الائن کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں پن بجلی کے شعبہ میں عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کی مالی معاونت سے منصوبے چل رہے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن