بنگلہ بندو بمقابلہ اختر مینگل
شیخ مجیب الرحمن (بنگلہ بندو) کے چھ نکات اور بلوچ قوم پرست رہنما سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل کے چھ نکات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اختر مینگل نے بلوچستان کے مسئلہ کے حل کیلئے چھ نکات پیش کر کے پاکستان کی سیاسی اور عسکری اسٹیبلشٹمنٹ کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر ہمارے چھ نکات نہ مانے گئے تو پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے۔ وہی کچھ ہو سکتا ہے جو 1971ءمیں ہوا تھا۔ بنگلہ بندو نے جو 1955ءسے 1958 تک قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے‘اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ”مشرقی پاکستان“ کے لفظ پر اعتراض کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ 1956ءکے آئین میں دئیے گئے مشرقی پاکستان میں سے لفظ پاکستان نکال دیا جائے اور بنگالیوں کی شناخت قائم رکھنے کے لئے مشرقی پاکستان کی جگہ ”مشرقی بنگال“ کی اصطلاح استعمال کی جائے۔
دس برس بعد 1966ءمیں جب شیخ مجیب الرحمن نے ون یونٹ کو ختم کر نے کے لئے ایجی ٹیشن شروع کیا تو انہوںنے لاہور میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں چھ نکاتی چارٹر جسے انہوں نے ”ہماری بقا کا چارٹر قرار دیا تھا“ پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ 1 ۔ پاکستان کے آئین کو ایک حقیقی وفاقی آئین ہونا چاہئے اور عوام کے نمائندوں کو ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر منتخب ہونا چاہئے۔ 2 ۔ وفاقی حکومت کے پاس صرف دفاع اور خارجہ کے امور ہونا چاہئیں۔ باقی تمام امور صوبوں کے حوالے کئے جائیں 3 ۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے لئے دو الگ کرنسیاں رائج کی جائیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر مشرقی پاکستان کے لئے الگ مالیاتی پالیسی بنائی جائے۔ 4۔ ٹیکس لگانے کے تمام اختیارات صوبوں کو دئیے جائیں‘ وفاق سے یہ اختیارات واپس لئے جائیں۔ وفاق صرف اپنے اخراجات کیلئے صوبوں کی آمدنی سے حصہ لے سکتا ہے۔ 5۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے لئے دو الگ فارن ایکسچینج ریزرو ہونا چاہئیں۔ 6 ۔ مشرقی پاکستان کی ایک الگ ملیشیا یا پیرا ملٹری فورس ہونا چاہئے۔
شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات ایک طرح سے کنفیڈریشن کی بنیاد رکھ رہے تھے جنہیں اس وقت کی فوجی اور کسی حد تک سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے قبول نہیں کیا تھا ان نکات کو قبول نہ کرنے اور شیخ مجیب کی گرفتاری اور رہائی اور پھر 1970ءکے انتخابات کے نتائج نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے فضا کو ہموار کیا۔
اختر مینگل کے چھ 6 نکات نفسیاتی اعتبار سے ایک وسوسہ تو ضرور پیدا کرتے ہیں لیکن ان کے پیش کردہ نکات ایسے ہیں جو قابل عمل ہیں اور Doable میں ان پر عملدرآمد سے بلوچستان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اختر مینگل نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچ قوم کے خلاف تمام خفیہ اور کھلے فوجی آپریشن بند کئے جائیں۔ آرمی چیف کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں ایک بھی فوجی نہیں‘ وہاں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہو رہا۔ اختر مینگل نے خفیہ ایجنسیوں کے ”ڈیتھ سکواڈ“ بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے کہ بلوچ سیاسی جماعتوں میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت بند کر کے انہیں کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ بلوچ کارکنوں اور رہنما¶ں پر تشدد اور ان کی گرفتاریاں بند کی جائیں۔ کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے بلوچوں کی مالی مدد کی جائے۔
1966ءکے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کے مقابلے میں یہ سارے نکات ایسے ہیں جن پر عمل کر کے بلوچوں کے گلے شکوے دور کئے جا سکتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ پنجاب‘ سندھ اور دوسرے صوبوں کی ساری جماعتیں بھی ان نکات کی حامی ہیں۔ میڈیا اور عدلیہ بھی اختر مینگل کے مطالبات کے حق میں ہیں۔ عدلیہ تو اس ضمن میں بہت فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ اﷲ کرے کہ اختر مینگل باقی بلوچ قوم پرستوں کو آن بورڈ کر لیں کیونکہ بہت سے قوم پرست لیڈروں نے اختر مینگل کی اسلام آباد میں آمد پر ناگواری کا اظہار کیا ہے۔