• news

کس کا معیار دوہرا ۔۔۔؟

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ روز نیویارک میں پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ نے انصاف کی فراہمی میں دوہرا معیار اپنا رکھا ہے اگر عدلیہ اصلاحات نہیں کرے گی تو پاکستان کی عوام خود عدلیہ میں اصلاحات لائیں گی۔ اول تو بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کنونشن سے خطاب نیویارک میں کیا اور بڑی حیرت کی بات ہے کہ پارٹی پاکستان کی ہو اور اس کا کنونشن نیویارک میں منعقد کر کے اس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی سطح پر پاکستانی عدلیہ پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی جائے اور اس عدلیہ پر جس کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو چند ماہ قبل ہی انٹرنیشنل جیورسٹ ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہو اور اس دوران چیف جسٹس نے کسی قسم کی سفری مراعات لینے سے انکار کر دیا تھا۔ پیپلزپارٹی اپنے آپ کو وفاق کی زنجیر قرار دیتی ہے مگر دوسری طرف بلوچستان کے اندر حالات کی شورش میں پیپلزپارٹی کا بہت بڑا حصہ ہے اور بلوچستان کے سلگتے حالات پر سردار اختر مینگل چھ نکات بھی پیش کر چکے ہیں اور یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ہمیں ایک مرتبہ آخری دفعہ گلے مل لیا جائے۔ نواب اکبر بگٹی کے صاحبزادے بھی کہہ چکے ہیں بلوچستان کے حالات مشرقی پاکستان سے زیادہ مختلف نہیں رہے۔ گویا پیپلزپارٹی وفاق کی زنجیر تو نہیں رہی اور رہی سہی کسر وہ پنجاب کے ساتھ ظلم اور زیادتی کر کے نکالتی رہی ہے۔ اس وقت بھی صوبہ پنجاب میں جنوبی پنجاب کی صورت میں نیا صوبہ قائم کرنے کا جو شوشہ چھیڑا گیا ہے اس سے بھی پیپلزپارٹی اپنے آپ کو وفاق کی زنجیر قرار نہیں دے سکتی۔ پیپلزپارٹی نے ہر لحاظ سے صرف اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے سیاست کی ہے اور ہر لحاظ سے وفاق کا صوبوں کے ساتھ رشتہ کمزور کیا۔ جس کی مثال صوبہ سرحد میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ سندھ میں منظور کیا گیا حالیہ بلدیاتی آرڈیننس اس کڑی کی اہم لڑی ہے جب پورے سندھ کے بیشتر حصوں میں اس آرڈیننس کو منظور کرنے کے خلاف شٹرڈا¶ن ہڑتال تک رہی۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری شاید بھول رہے ہیں کہ اس وقت ملک میں وہی آزاد عدلیہ موجود ہے جس کی بدولت ان کی وفاق میں حکومت قائم ہو سکے۔ اگر خدانخواستہ آزاد عدلیہ موجود نہ ہوتی یعنی چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری اس وقت کے آمر اور صدر جنرل(ر) پرویزمشرف کے دبا¶ میں آ جاتے اور چپ چاپ اپنی معزولی پر گھر چلے جاتے تو کبھی بھی پیپلزپارٹی کی حکومت قائم نہیں ہو پانی تھی۔ پیپلزپارٹی کی آج حکومت آزاد عدلیہ کی مرہون منت ہے مگر اس عدلیہ کو ہی ہدف تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کسی بھی معاشرے اور ملک میں قانون کی حکمرانی ازبس ضروری ہوا کرتی ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اگر عدلیہ کوئی فیصلہ قانون کے تحت کسی حکومت کی منشاءکے بغیر اس کے خلاف جاری کر دے تو اس عدلیہ پر تنقید کے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے جائیں۔ اس وقت ملک میں جو آزاد عدلیہ ہے اس کی پشت پر پوری قوم کھڑی ہے اور بلاول بھٹو نے عدلیہ میں عوام کی طرف سے اصلاحات لانے کی کون سی بات کی ہے۔ وہ شاید نہیں جانتے کہ عوام مکمل طور پر آزاد عدلیہ کے ساتھ ہے اور اسی بناءپر آزاد عدلیہ قانون اور آئین کے تابع آزادانہ اور جرات مندانہ فیصلے کر رہی ہے۔ اقتدار کے دوام اور مخصوص سیاسی مفادات کے لئے عالمی سطح پر ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے عدلیہ پر قدغن لگانے کی جو بات کی ہے اس کی تمام سیاسی حلقوں کی طرف سے بھرپور مذمت کی جا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ آزاد عدلیہ کے مشکور ہوتے کہ اسی عدلیہ کی بدولت آج پیپلزپارٹی مسند اقتدار پر براجمان ہے مگر وہ سب کچھ فراموش کر کے آزاد عدلیہ کے معیار کو دوہرا قرار دے رہی ہے کیا وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ عدلیہ نے کسی کیس یا ایشو پر دوہرے معیار کو اپنایا ہو۔ حقیقتاً وہ ایسا نہیں کر سکتے اور صرف سیاسی نابالغ پن میں وہ ایسا کر رہے ہیں۔ مرحوم بینظیر بھٹو نے آزاد عدلیہ کے لئے بھرپور جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور انہوں نے نعرہ لگایا تھا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے گھر پر ایک مرتبہ پھر پاکستان کا جھنڈا لہرائیں گی۔ یہ وہی عدلیہ ہے جس کی آزادی کا خواب بلاول بھٹو کی مرحوم والدہ نے دیکھا تھا اور یہی عدلیہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں بار بار اپنے ریمارکس کے دوران کہہ چکی ہے کہ آخر حکومت بینظیر قتل کیس میں کسی قسم کی پیش رفت کرنے سے قاصر کیوں ہے۔ ایسی عدلیہ جس کے کردار کو تاریخ کبھی فرامو ش نہیں کر پائی اس عدلیہ کو نیویارک میں بیٹھ کر پاکستانی جماعت کا نیویارک میںکنونشن منعقد کر کے تنقید کا نشانہ بنانا افسوس ناک ہے جو اس بات کا چیخ چیخ کر اعلان کرتا ہے کہ ہمارے حکمران آج بھی وہی قانون کا دوہرا معیار چاہتے ہیں جس میں ان کی بقا ہو اور ذاتی و مخصوص مفادات کا تحفظ ہوتا رہے۔ اگر یہ عدلیہ این آر او کیسز شروع نہ کرتی، رینٹل پاور پلانٹ کرپشن سکینڈل کے کیس نہ سنے جاتے، این آئی سی ایل پر کوئی قدم نہ اٹھایا جاتا، ایفی ڈرین کیس پر خاموش رہتی اور ہر طرح کے کرپشن سکینڈل اور معاملات پر قانون کو حرکت میں نہ لاتی تو پھر انہی حکمرانوں نے عدلیہ کے گیت گا رہے ہونے تھے لیکن کیونکہ عدلیہ صرف اور صرف آئین اور قانون کو سپریم تصور کر کے اس کی روشنی میں عمل پیرا ہے تو اس پر طرح طرح کا کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو تسلیم کرنا ہو گا کہ عدلیہ کے انصاف کا معیار دوہرا نہیں بلکہ ان کی جماعت اور اس کے اقتدار کا معیار دوہرا ہے وہ صرف اور صرف اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لئے اقتدار کی چھتری کی چھا¶ں تلے موج مستی کرنے کے طلب گار ہیں جبکہ ملک اور قوم سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔

ای پیپر-دی نیشن