• news

نیو یارک عالمی سیاسی میلے کا منظر نامہ

سیاست کا لگا بازار ہے اقوام عالم میں
وقار اپنا ہمیں درکار ہے اقوام عالم میں
کھڑی ہوتی ہے اپنے پاﺅں پر جو قوم عزت سے
وہی اب قافلہ سالار ہے اقوام عالم میں
ہر سال ماہ ستمبر میں امریکہ کے ساحلی شہر نیو یارک میں اقوام متحدہ کے اراکین ممالک کے سربراہوں کا ایک سیاسی میلہ سجتا ہے۔ حقیقت میں یہ میلہ اس عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہوتا ہے مگر دنیا بھر کے سربراہان مملکت یا حکومت اس اجتماع سے نہ صرف خطاب کرتے ہیں بلکہ اجلاس کی سائیڈ لائن پر ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرکے اپنے اپنے قومی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہی وہ موقع ہے جہاں امریکہ سے نالاں ممالک واشگاف الفاظ میں امریکی پالیسی پر کڑی تنقید کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ حسب سابق امسال بھی جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں پاکستان کی نمائندگی صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کی۔ اجلاس کے دوران جو دھواں دار تقاریر کی گئیں ان میں امریکی صدر باراک اوباما، پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے خطابات عالمی توجہ کا باعث بنے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اعلان کیا کہ گستاخانہ فلم کی مذمت پر پُرتشدد احتجاج بلا جواز ہے اور امریکہ کا گستاخانہ فلم سے کوئی تعلق نہیں، یہ فلم امریکہ کی بے عزتی ہے۔ لیبیا میں امریکی سفارت خانے پر حملہ امریکہ پر حملہ تھا۔ تاہم اوباما نے کہا کہ مسلمانوں کے پیغمبر کی توہین کرنے والوں کی مستقبل میں کوئی جگہ نہیں، شام میں بشار الاسد کا اقتدار ہر صورت ختم ہونا چاہیے، معصوم لوگوں پر حملے اقوام متحدہ کے منشور کے خلاف ہیں۔ پاکستان کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی اپنے خطاب میں گستاخانہ فلم کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ نبی پاک کی گستاخی کو مجرمانہ فعل قرار دیا جائے کیونکہ اس قسم کی کارروائیوں سے عالمی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ پاکستانی صدر نے دو ٹوک الفاظ میں کہاکہ عالمی برادری کو محض خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اظہار رائے کی آزادی کے غلط استعمال سے عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے والی کارروائیوں کو مجرمانہ زمرے میں شامل کرنا چاہیے۔ پاکستانی صدر نے بتایاکہ علاقائی تنازعات پر ہمارا اصولی موقف خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے، ہم جموں و کشمیر کے عوام کی حمایت جاری رکھیں گے تاکہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دیرینہ قرار دادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ صدر نے کہا کہ کشمیر اقوام متحدہ کے سسٹم کی ناکامی کی علامت ہے۔ انہوں نے یورپی یونین کے رکن ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ تجارت کی اہمیت کو تسلیم کر لیا ہے۔ ہم امدادکی بجائے تجارت کے خواہاں ہیں۔ یورپی یونین نے تجارتی رعائتیں دے کر ہمیں ایک مثبت پیغام دیا ہے۔ ہم اپنی معیشت کی بحلی کے عمل پر توجہ دے سکیں گے اور دہشت گردی کے خلاف موثر طریقے سے لڑیں گے۔ صدر نے کہا دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ہماری معیشت زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ساتھ ہی بزرگان دین اور ہمارے آزادی پسند اسلاف کے سائے میں زندگی گزارنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے، ہم نے سات ہزار فوجی اور پولیس جوانوں کی جانیں گنوائیں ہیں اور 37ہزار سے زیادہ شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے بھی خطاب کیا اور اپنی روایتی جرا¿ت مندی کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ بڑی طاقتوں کو حاصل ویٹو استعمال کرنے کا حق ناقابل قبول ہے کیونکہ ویٹو کی موجودگی میں سلامتی کونسل دنیا میں انصاف کرنے اور سیکورٹی قائم کرنے کی اہل نہیں ہے۔ محمود احمد نژاد نے بتایا کہ ویٹو طاقت کی حامل قوتوں کی اکثریت یعنی امریکہ، برطانیہ اور فرانس اسرائیل کی اتحادی ہیں جو کہ ایک ایٹمی طاقت ہے اور ایران کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ ایرانی صدر نے بین الاقوامی تعلقات میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے دس نکات پر مشتمل تجاویز دیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ عالمی رہنماﺅں کے خطابات نیو یارک کی فضا کو وقتی طور پر مرتعش کرنے کے بعد تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ مظلوم ممالک نے اپنی مظلومیت کی داستانیں سنا دی ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ سب تقاریر حسب معمول صدا بصحرا ثابت ہوں گی کیونکہ امریکہ اور اس کے حامی مغربی ممالک یہ نہیں چاہتے کہ مسلم ممالک متحدہ انداز میں معاشی اور فوجی لحاظ سے ایک عالمی قوت بن جائیں۔ عالمی مسلم تنظیموں اور آئی سی اور عرب لیگ کو اس بارے میں اب سوچنا چاہیے تاکہ مسلمان دنیا میں باوقار طریقے سے زندگی گزارنے کی اہل ہو جائیں۔

ای پیپر-دی نیشن