اُردو ہے جس کا نام
بانےان پاکستان کے پےش نظر قےام پاکستان کے جہاں کئی عظےم مقاصد تھے اُن مےں اےک قومی زبان اُردو کا تحفظ بھی تھا۔ لہذا بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ نے کئی بار واضح طور پر ےہ فرما دےا تھا کہ پاکستان کی قومی سرکاری زبان اُردو اور صرف اُردو ہو گی۔ شاےد ےہی وجہ تھی کہ جناب حمےد نظامی مرحوم نے نوائے وقت کے پہلے پرچے مےں ”کچھ اپنے متعلق“ کے عنوان سے اپنے خےالات کا اظہار ان الفاظ مےں کےا:
”لےکن ہم آپ کو ےہ ےقےن ضرور دلانا چاہتے ہےں کہ ہم آپ کے سامنے صرف اچھی خبرےں پےش کرےں گے ہمارے دو سب سے بڑے مقاصد ہےں۔ اردو زبان کی ترقی اور علامہ اقبالؒ کے پےغام کی اشاعت: ان کی اہمےت محتاج بےاں نہےں۔“
الحمدللہ نوائے وقت جناب مجےد نظامی کی سرپرستی آج بھی اپنی اس رواےت کو برقرار رکھے ہوئے ہے کہ آج بھی اخبار کا صفحہ علامہ اقبال کے کلام سے مزےن ہوتا ہے اور ہمےں امےد ہے کہ جناب مجےد نظامی نظرےہ پاکستان فاو¿نڈےشن کے پلےٹ فارم سے قومی زبان اردو کی اہمےت اور نفاذ کےلئے بھی ضرور آواز بلند کرکے بانی پاکستان اور جناب حمےد نظامی مرحوم کی روح کو شاد کرےں گے۔ بلاشبہ ہر زندہ اور غےرت مند قوم کو اپنی ثقافت عزےز ہوتی ہے اور وہ اسے کسی قےمت پر بھی مٹتے ہوئے ےا برباد ہوتے نہےں دےکھ سکتی چاہے اس کے لئے اسے کتنی ہی بڑی قربانی کےوں نہ دےنی پڑے ےہی وہ عظےم جذبہ تھا جو حصول پاکستان کا باعث بنا اگر ہمارے دلوں مےں اپنی ثقافت کی محبت کا جذبہ نہ ہوتا تو ہم ہندوستان کی تہذےب مےں جذب ہونے پر تےار ہوتے اور اپنی انفرادےت کو قائم کرنے کےلئے ان سب مصائب کا مقابلہ کبھی نہ کرتے جو ہمےں پاکستان کے حصول کی راہ مےں پےش آئے۔ ےہ نادانی نہےں تو اور کےا ہے کہ جب ہم نے اپنی انفرادےت کو قائم رکھنے کا حق بے شمار جانےں قربان کرکے حاصل کر لےا تو آج اسے اپنے ہی ہاتھوں سے کٹوا رہے ہےں۔ ےہ ہے مقام عبرت کہ وہ قوم جو اس دعوے کے ساتھ اٹھی تھی کہ اسے اپنی تہذےب و ثقافت اتنی عزےز ہے کہ وہ اغےار کے ساتھ شرکت کی زندگی کےلئے کسی قےمت پر آمادہ نہےں وہ اسی ثقافت کو بے سوچے سمجھے مٹا رہی ہے۔ وطن عزےز کو وجود مےں آئے نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لےکن ہم ابھی تک اپنی قومی زبان اُردو کو فروغ نہےں دے سکے بلکہ اےک غےر ملکی زبان کے سحر مےں گرفتار ہےں۔ ہمارے دل مےں اپنی کسی رواےت سے وابستگی اور اپنی مےراث کے کسی حصہ سے لگاو¿ کا شائبہ تک نہےں رہا ۔ ہم نے بانی پاکستان کے دےگر فرامےن کی طرح اردو زبان کے بارے مےں فرمان کو بھی طاق نسےاں پر رکھ دےا ہے۔ 1973ءکے متفقہ آئےن کی شق 251 (1) جس مےں ےہ درج ہے کہ آج سے پندرہ سال بعد ےعنی 1988ءتک اردو مکمل طور پر نافذ ہو جائے گی سے ہمارے بے حس حکمران جان بوجھ کر چشم پوشی اختےار کئے ہوئے ہےں۔ ہمےں اپنی ثقافت مقدم اور عزیز کیوں نہیں ہے آج ہمارے بچے ان کتابوں کے ناموں سے بھی واقف نہیں ہیں جو کبھی ہمارے لئے مشعل راہ تھیں۔ کبھی ہم نے اس پہلو پر غور کیا ہے کہ اپنی ثقافت سے دوری کے نتائج کےا نکلےں گے۔ کچھ تو سامنے آرہے ہےں جو قوم دوسروں کی شرکت کی بھی روادار نہ تھی وہ اب اغےار کی بھےک پر قافع ہے۔ جس کےلئے حضرت قائداعظم نے کہا تھا کہ غرےبی کے ساتھ آزادی اور عزت غلامی کی خوشحالی سے بہتر ہے۔ اگر دوسروں کی تہذےب و تمدن کو اختےار کرکے یا تنگ قمےضوں چست پتلونوں اور جسم کی ساخت کی نمائش سے ترقی ےافتہ اقوام کی صف مےں جگہ مل جاتی تو پھر کےا تھا نہ کتب خانے کی ضرورت تھی‘ نہ کسی جامعہ کی‘ نہ کسی دانش کدہ کی‘ نہ کسی تحقےقی ادارہ کی نہ مطالعہ اور جستجو کی۔
اگر دوسروں کی زبان پر ہی ترقی کا انحصار ہوتا تو جاپان علوم و فنون مےں ہم سے بہت پےچھے ہوتا اور علمی دنےا مےں آج اسے وہ فوقےت حاصل نہ ہوتی جو ےورپ و امرےکہ مےں بھی باعث رشک ہے۔ آخر کےا دےوانگی ہے جو ہم نے اپنے اوپر طاری کر لی ہے کہ ہم اپنی زبان اپنی تہذےب کو پس پشت ڈال کر انگرےزی زبان اور تہذےب و تمدن کی اندھا دھند پےروی کر رہے ہےں۔ سائنسی علوم کی تعلےم کے بارے مےں کہا جاتا ہے کہ ےہ انگرےزی کے علاوہ کسی اور زبان مےں کامےابی سے نہےں دی جا سکتی۔ حالانکہ غےر ملکی زبان کی وساطت سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ عمےق مشکل سے حاصل ہو سکتا ہے اس لئے کہ ےہ قدرت ہم مےں سے بہت کم کو نصےب ہوتی ہے کہ اپنی زبان کی طرح کسی غےر زبان کو بھی اےسا اپنا لےں کہ اس مےں خےالات مےں افہام و تفہیم میں ہمےں دقت نہ ہو۔ طبےعی علوم کو عوام تک پہنچانے کےلئے تو اپنی زبان اختےار کرنے کے علاوہ چارہ ہی نہےں۔ لہذا طبےعی علوم کے ماہرےن اگر اس قوم مےں ان علوم کا ذوق پےدا کرنا چاہتے ہےں تو ان کو اپنی زبان مےں منتقل کرےں۔ اپنی زبان مےں سوچےں اور اپنی زبان مےں لکھےں‘ اپنی زبان مےں سمجھےں اور اپنی زبان میں سمجھائیں۔ اگر پورے علوم اپنی قومی زبان اردو مےں منتقل ہو جائےں تو اس سے کتنے مفےد نتائج برآمد ہوں گے۔
اردو ہے جس کا نام ہمےں جانتے ہےں داغ
”سارے جہاں“ مےں دھوم ہماری زبان کی ہے