• news

مجید نظامی سے ڈاکٹر مجید نظامی تک

اس دنیا میں ایسے شخص کو خوش قسمت ترین قرار دیا جا سکتا ہے جس کی صلاحیتوں اور عظمت کا اعتراف اس کی زندگی میں کیا جائے اور وہ بھی اس انداز سے کہ اپنے تو اس سے محبت و عقیدت رکھتے ہی ہوں اس کے مخالفین بھی اس کی صلاحیتوں، جرا¿ت، حق گوئی اور پاکیزہ کردار کے معترف ہوں۔ نظریہ پاکستان کے علمبردار، حب والوطنی کے نشان امتیاز، آبروئے صحافت محترم مجید نظامی کا شمار بھی ایسی ہی خوش قسمت شخصیات میں ہوتا ہے۔ کوئی بھی بلند مقام حاصل کرنے کےلئے قربانی دینا پڑتی ہے۔ یہ قربانی مالی بھی ہوتی ہے، بدنی، بھی ہوتی ہے، خواہشات کی بھی ہوتی ہے اورآسودگی و سہولیات کی بھی۔ محترم مجید نظامی نے یہ سب قربانیاں دی ہیں۔ وہ شعبہ صحافت کی سب سے قابل احترام شخصیت ہیں۔ انہوں نے اپنی محنت، دیانت اور لیاقت سے ”نوائے وقت“ کے پودے کی اس طرح آبیاری کی کہ آج نوائے وقت، دی نیشن فیملی میگزین، پھول اور وقت نیوز پر مشتمل ایک گروپ وجود میں آ چکا ہے۔ اتنی بڑی صحافتی سلطنت کے سربراہ ہونے کے باوجود انہوں نے سادگی کو اپنایا۔ وہ آج بھی چھوٹے سے گھر میں مقیم ہیں۔ مالی آسودگی حاصل ہو تو انسان کا شیطانی اشغال کی طرف مائل ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے لیکن انہوں نے حلال کمایا اور حلال کھایا۔ حرام کھانا تو دور کی بات انہوں نے حلال بھی ہاتھ کھینچ کر کھایا ہے۔ انہوں نے دولت اور مراعات حاصل کرنے کےلئے حکمرانوں کے آگے کبھی سر خم نہیں کیا۔ بلکہ ہر جابر سلطان کے سامنے کلمہ¿ حق بلند کیا۔ اس کی انہیں قیمت بھی ادا کرنا پڑی لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ انہوں نے ملٹری اور سول آمریت دونوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انہوں نے اپنے مالی وسائل کو غلط سمت بہنے اور اپنی زندگی کی جدوجہد کے قبلے کو درست سمت رکھنے کےلئے کئی مرتبہ حج اور عمرے کی سعادتیں حاصل کیں۔ انہوں نے دنیاوی جاہ و حشمت اور مقام پر ہمیشہ احترام کو ترجیح دی۔ لہذا جب میاں نواز شریف نے اپنے دور وزارت عظمیٰ میں انہیں صدر پاکستان کا عہدہ پیش کیا تو انہوں نے معذرت کر لی جیسا کہ جونیجو صاحب نے انہیں پنجاب کی گورنر شپ آفر کی اور انہوں نے یہی طرز عمل اختیار کیا اور محافظ پاکستان و داعی¿ نظریہ پاکستان رہنا ہی پسند فرمایا۔ ہر آمر اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے بے باک مجید نظامی دوستوں کی محفل میں بریشم کی طرح نرم ہو جاتے ہیں۔ بے ساختہ چٹکلے چھوڑ کر محفل کو کشتِ زعفران بنا دیتے ہیں۔ ان کی ستر سالہ صحافتی اور پچاس سالہ ادارتی اور طویل قومی خدمات کے اعتراف میں برصغیر کی قدیم اور ممتاز پنجاب یونیورسٹی جہاں سے انہوں نے ایم اے پولیٹیکل سائنس کیا تھا۔ نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کے لئے منتخب کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے ان کا نام تجویز کیا۔ سنڈیکیٹ کے ممبران اور اس کے بعد گورنر پنجاب نے اس کی منظوری دی۔ ڈاکٹر مجاہد کامران، سنڈیکیٹ کے ممبران ڈاکٹر شوکت علی، ڈاکٹر مجاہد منصوری، رجسٹرار ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر، ڈاکٹر اکرام اللہ خاں، کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر لیاقت علی، خواجہ عمران نذیر و دیگر قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے اس ڈگری کےلئے ایک نہایت قابل احترام اورغیر متنازعہ شخصیات کا انتخاب کیا۔ یونیورسٹی کے ناظم شعبہ تعلقات عامہ اسرار رانا، اساتذہ و طلبا و طالبات تقریب کے انتظامات میں سرگرم رہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے الرازی ہال میں اہم شخصیت موجود تھیں۔ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ سڑکوں پر خیرمقدمی بینرز آویزاں کئے گئے تھے۔ محترم مجید نظامی اپنے مخصوص انداز میں اپنے مختصر خطاب کے دوران حاضرین کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔ انہوں نے ڈاکٹر مجاہد کامران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلر صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجید نظامی سے ڈاکٹر مجید نظامی بنا دیا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ کام مجھے چند سال پہلے تھوڑی سی محنت سے کر لینا چاہئے تھا لیکن بیرون ملک چلے جانے کی وجہ سے یہ کام نہ ہو سکا حالانکہ میں نے ایم اے سیاسیات کے دوران پریس ان پاکستان کے موضوع پر تھیسس لکھا تھا جو اب میں نے دوبارہ پرنٹ کروایا ہے۔ انہوں نے مختلف حکمرانوں سے اپنی ملاقاتوں کا احوال دلچسپ انداز میں بیان کیا جس سے ہال میں قہقہے اور تالیاں گونجتی رہیں۔
 محترم مجید نظامی کو پاکستان کا اعلیٰ سول ایوارڈ نشانِ امتیاز بھی مل چکا ہے۔ حال ہی میں لارنس روڈ کا نام بھی شاہراہ مجید نظامی رکھا گیا ہے۔ وہ بارہ سال سے نظریاتی سمر سکول کے بچوں کو نظریاتی گریجوایٹ کا خطاب دیتے آرہے ہیں اور ملک بھر کے بچوں کو نظریاتی تربیت اور حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ اخباری صنعت میں واحد نوائے وقت گروپ ہے جو بچوں کےلئے گزشتہ22 سال سے ماہنامہ پھول شائع کر رہا ہے جو ان کی بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کا ثبوت ہے۔ محترم مجید نظامی صاحب کی کامیابیوں اور اعزازات کے حصول میں نونہالان وطن کی پرخلوص دعائیں بھی شامل حال ہیں۔
ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر،فصیح اقبال، مجیب الرحمان شامی اور کرنل(ر) امجد حسین نے محترم مجید نظامی سے اپنے دیرینہ تعلقات اور نظامی صاحب کے اوصاف اور اعلیٰ کردار و جرا¿ت اظہار کے بہت سے واقعات پیش کئے۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران نے بتایا کہ برصغیر میں پہلی مرتبہ صحافتی خدمات پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری مجید نظامی کو دی جا رہی ہے جبکہ مجیب الرحمان شامی نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ میری معلومات کے مطابق عالمی سطح پر کسی صحافی کو دی جانے والی یہ پہلی اعزازی ڈگری ہے۔
محترم مجید نظامی کو اعلیٰ صحافتی خدمات پر یہ اعزازی ڈگری دے کر پنجاب یونیورسٹی نے اس ڈگری اور اپنی توقیر میں اضافہ کیا ہے۔ یہ محترم مجید نظامی ہی نہیں پوری صحافی برادری اور خود پنجاب یونیورسٹی کا اعزاز ہے۔ اس ڈگری کو پہلی اور آخری ڈگری بھی سمجھا جائے اور قومی سطح پر آئندہ اگر کوئی ادارہ اس شعبے میںکسی کو اعزازی ڈگری جاری کرنے کا ارادہ کرے گا تو یقیناً اسے اس پائے کی محترم و معزز اورغیر متنازعہ شخصیت ڈھونڈنے میں مشکل پیش آئے گی اور وہ ادارہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ۔ع
ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سا کہیں جسے

ای پیپر-دی نیشن