• news

لوٹے ہوئے مال کی واپسی

اولڈ راوینز کی طرف سے ایس ایم ظفر اور ذوالفقار چیمہ نے مجید نظامی کے لئے ڈاکٹریٹ کی ڈگری پر مبارکباد دی ہے۔ مجید نظامی بھی اولڈ راوین ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ محکمہ پولیس میں زیادہ لوگ گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے ہوئے ہیں۔ اولڈ راوین ہیں۔ ذوالفقار چیمہ ایک دلیر دیانتدار اور بہت اہل پولیس افسر ہیں وہ اہل دل بھی ہیں۔ وہ گوجرانوالہ کے بعد شیخوپورہ کے آر پی او مقرر ہوئے ہیں۔ انہوں نے چند دن پہلے ضلع قصور میں بلایا تھا۔
ضلع قصور کے مختلف علاقوں سے لوگ جمع تھے۔ جنہیں ان کا لوٹا ہوا مال واپس کیا جا رہا تھا۔ یہ کبھی ہوا ہے؟ لوٹا ہوا مال برآمد کر بھی لیا جائے تو پولیس والے اسے مال حرام سمجھتے ہیں اور مال حرام ان کے لئے رزق حلال کی طرح ہوتا ہے۔ قوم کا لوٹا ہوا مال سیاستدان حکمران کھا گئے یہ انہونی ہے۔ سیاستدانوں سے لوٹا ہوا مال واپس لینے کے لئے بھی چیمہ صاحب کی ڈیوٹی لگائی جائے مگر میرے خواب میری آرزوئیں جو لٹ گئی ہیں وہ کون واپس دلوائے گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی ڈکیتی پولیس والوں کے تعاون اور اجازت کے بغیر نہیں ہوتی۔ منشیات فروشوں، ڈاکوﺅں اور جرائم پیشہ لوگوں سے ان کے گہرے تعلقات ہوتے ہیں۔ سیاسی مداخلت پولیس والوں کے لئے تکلیف دہ ہوتی ہے چیمہ صاحب نے سیاسی مداخلت کی کبھی پرواہ نہیں کی۔
لوگوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ انہیں ان کا لوٹا ہوا مال واپس مل رہا ہے۔ پولیس والے بھی پریشان تھے کہ ہمارے حصے کے بغیر یہ کارروائی کیسے ہو رہی ہے۔ ہم بھی دم بخود تھے کہ ایسا منظر پہلے تو ہم نے نہ دیکھا تھا۔ میں نے یہ منظر پہلے بھی دیکھا ہوا ہے۔ گوجرانوالہ میں ذوالفقار چیمہ آر پی او تھے۔ وہاں بھی لوگوں کی یہی ذہنی کیفیت تھی۔ میں تو واقعی بہت پریشان تھا کہ اچھرہ میں میری بہن کا پرس دکان کے اندر سے اٹھا لیا گیا تھا۔ SHO اچھرہ نے میری ایسی پذیرائی کی کہ میں نے بہن سے کہا تمہیں پیسے واپس مل جائیں گے۔ وہ بھی میری بہن ہے اس نے کہا کہ پرس میں صرف 26 ہزار روپے تھے۔ میری موجودگی میں پولیس والے رقم زیادہ نہ لکھوا سکتے تھے۔ تب اولڈ راوین سعادت اللہ خان آئی جی پنجاب تھے اور ان سے فون پر تھانہ اچھرہ میں ہی بات ہوئی مگر ایک پیسہ واپس نہ ملا۔ اب یہ پیسہ تو ذوالفقار چیمہ بھی واپس نہیں دلوا سکتے۔ کس کس ڈویژن میں ذوالفقار چیمہ کو بھیجا جائے گا۔ پولیس کے محکمے میں کوئی ایک بھی دوسرا پولیس افسر قابل ذکر نہیں ہے بہرحال اس ایک مثال سے بھی محکمہ پولیس میں تبدیلی کی توقع تو ہے۔ جو افسران ان کے ماتحت ہوتے ہیں وہ بھی اچھے بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پھر اپنی ”اصل“ شخصیت میں واپس آ جاتے ہیں۔
وہ گوجرانوالہ میں تھے تو میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ چیمہ صاحب اور پولیس کو پکار پکار کر دعائیں دیتے تھے اور سکھ کی نیند سوتے تھے۔ اس سے پہلے ان کی زندگیاں حرام ہو گئی تھیں۔ مجرموں اور ظالموں کا وہ حشر کیا گیا کہ پورے شہر میں جشن منائے گئے ورنہ اب لوگ پولیس کو بددعائیں بھی نہیں دیتے کہ ان کی بددعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔
ایس پی انوسٹی گیشن حماد رضا بہت سمارٹ پولیس افسر ہیں۔ وہ ان لوگوں کا نام پکارتے اور لوٹے ہوئے مال کی تفصیل بھی بیان کرتے تھے چھینی ہوئی گاڑیوں کی چابیاں بھی ان کو دی گئیں۔ وہ بہت جذبے سے بول رہے تھے۔ ان کے انداز میں چیمہ صاحب کے لئے شکرگزاری کی گونج بھی تھی۔ چیمہ صاحب کی وجہ سے پورے محکمہ پولیس کو ایک ناقابل یقین عزت حاصل ہو رہی تھی۔ لوگ باوردی انسانوں کو محبت سے دیکھ رہے تھے۔ میرے خیال میں ہر باوردی آدمی کو ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے۔ ذوالفقار چیمہ نے یہ بھی انتظام کیا کہ وہ اپنے گھروں کی طرف پولیس کی سیکورٹی میں جائیں۔ سیکورٹی تو ضلع قصور میں ہر کہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا پروٹوکول تھا جو انہیں دیا گیا تھا۔ دوسرے شہروں میں سیکورٹی اور پروٹوکول صرف خاص لوگوں کے لئے ہوتا ہے۔ قصور شہر اور اس کے مضافات میں منشیات فروشوں، ڈکیتوں اور جرائم پیشہ افراد کو ان کے انجام تک پہنچا دیا گیا ہے۔ ان میں سے کئی ظالموں کو سیاسی افراد کی پشت پناہی بھی حاصل تھی مگر چیمہ صاحب کسی کی پروا نہیں کرتے۔ لوگ حیران ہیں کہ چیمہ صاحب کا تعلق واقعی پولیس کے محکمے سے ہے؟ ڈی پی او قصور سید خرم علی شاہ بھی ایک درویش پولیس افسر ہیں۔ ان کے لئے چیمہ صاحب کی نگاہوں میں عزت تھی۔ ایک خاتون پولیس افسر پورے وقار اور اعتبار سے پولیس کی وردی میں ملبوس نظر آئی۔ اس کا تعارف چیمہ صاحب نے کرایا کہ شائستہ رحمان سی ایس ایس کرکے اے ایس پی ہوئی ہیں۔ انہوں نے دفتری ڈیوٹی کی بجائے فیلڈ ڈیوٹی کا انتخاب کیا ہے۔ وہ بہت خاموش طبع ہمارے گھروں کی لڑکیوں جیسی ہے۔ وہ خطرناک مجرموں کا سامنا بلکہ آمنا سامنا کیسے کرتی ہوں گی۔ ضلع قصور میں پولیس کی کامیابیوں میں خرم علی شاہ، حماد رضا دوسرے پولیس افسران اور ملازمین کے ساتھ شائستہ رحمان کی کچھ کنٹری بیوشن تو ہو گی۔
مجھے یورپ میں ناروے پسند ہے۔ میں کئی دفعہ وہاں گیا ہوں۔ ایک وزٹ میں وہاں وزیراعظم کوئی عورت تھی۔ کابینہ میں عورتوں کی اکثریت تھی۔ پولیس چیف بھی عورت تھی۔ میں حیران تھا اور خوش بھی تھا عورتوں کو زندگی کو کچھ اور زندگی بنانے کا موقع ملنا چاہئے۔ میں نے وہاں ایک انٹرویو میں ناروے کو عورتوں کی جنت کہا تھا۔ اس سے نارویجن خواتین بہت خوش ہوئی تھیں۔ میں نے پولیس چیف سے ملنے کی خواہش کی۔ مجھے ان کے پاس لے جایا گیا۔ وہ ایک دبلی پتلی عام سی عورت تھی۔ بالکل اے ایس پی شائستہ رحمان کی طرح تھی۔ پس اس کی عمر کچھ زیادہ تھی۔ وہ بہت نرمی اور اپنائیت سے میرے ساتھ ہمکلام ہوئی جبکہ یہ پولیس افسران کا شیوہ نہیں ہوتا۔ میں نے اس سے پوچھ لیا کہ آپ خطرناک مجرموں کو کس طرح قابو کرتی ہیں۔ اس نے کہا کہ ہمارے ہاں خطرناک مجرم تو نہیں ہیں اور ہمارے پاس قانون کی طاقت ہے۔ قانون کی طاقت میرے لئے اجنبی لفظ ہے کیونکہ پاکستان میں طاقت کا قانون چلتا ہے۔ اس نے بتایا کہ پچھلے سات سال سے ناروے کے کسی پولیس سٹیشن میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی۔ میں نے مشکوک اور محبوب نظروں سے اسے دیکھا۔ آپ کب سے پولیس چیف ہو۔ اس نے بتایا کہ مجھے دو سال ہونے والے ہیں۔ میں نے کہا کہ پھر آپ اس محکمے میں کیا کرتی ہو۔ اس نے بتایا کہ ہم یہی کرتے ہیں کہ کوئی جرم یہاں نہ ہو اور قانون کی طاقت اور اہمیت کا شعور لوگوں میں زیادہ ہو جائے۔ یہ بات یقینی بنا دی جائے کوئی قانون کے شکنجے سے بچ نہیں سکے گا اور قانون سب کے لئے برابر ہے۔ چیمہ صاحب نے ایک محفل میں وکیل کے لئے کہا کہ وہ قانون پسند ہے اور پولیس افسر کے لئے کہا کہ وہ خاتون پسند ہے۔

ای پیپر-دی نیشن