روس پاکستان کیلئے دروازے کھلے رکھنا چاہتا ہے، کرسچین سائنس مانیٹر
ماسکو (آن لائن) روسی صدر ولادی میر پیوٹن پاکستان کے طے شدہ دورے کی آخری لمحے منسوخی پر اسلام آباد کی ناراضگی کم کرنے کے لئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کی اسلام آباد آمد سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس پاکستان کے لئے دروازے کھلے رکھنا چاہتا ہے۔ کرسچن سائنس مانیٹر نے لاروف کے حالیہ دورہ پاکستان کے حوالے سے اپنی خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ءمیں افغانستان سے نیٹو کے مجوزہ انخلاء سے قبل روس کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات کی امیدوں کے حوالے سے کریملن تذبذب کا شکار نظر آرہا ہے کیونکہ گزشتہ ہفتے صدر ولادی میر پیوٹن نے اچانک اسلام آباد کا طے شدہ دورہ منسوخ کردیا تھا۔ اس سے یہ مضبوط پیغام ملتا کہ اس سے روس کی خارجہ پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کا مضبوط اشارہ ملتا جو کہ اس سے قبل خطے میں بھارت کو علاقے میں اپنا اول نمبر کا شراکت دار قرار دیتا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کریملن کا کہنا ہے کہ صدر پیوٹن کا دورہ باضابطہ طور پر مصدقہ نہیں تھا۔ روسی صدر کی رواں ہفتے مصروفیت اس قدر زیادہ تھی کہ اس میں دو روزہ دورے کی کوئی گنجائش نہیں تھی تاہم رپورٹ کے مطابق پیوٹن نے اپنے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کو اسلام آباد بھجوا کر پاکستانی رہنماﺅں کو مطمئن کرنے اور مستقبل میں تعلقات کی گرمجوشی کے لئے دروازے کھلے رکھنے کا پیغام دیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ روس پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے اور محض دوسال بعد افغانستان سے نیٹو انخلاءکے بعد ابھرتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے پاکستان کو ناگزیر کھلاڑی خیال کرتا ہے۔ دوسری جانب روسیوں کو خدشہ ہے کہ 1990ءکی دہائی کے شورش زدہ دورکا اعادہ نہ ہو جائے۔ ماسکو کے ایک سرکردہ خارجہ پالیسی کے جریدے کے ایڈیٹر فیوڈور لوکیانوف کا کہنا ہے کہ یہ دیکھا جانا ابھی باقی ہے کہ کیا ہونا ہے یقیناً ماسکو میں بہت سارے لوگ اس کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں جو کچھ 1989ءمیں افغانستان سے روسی انخلاءکے بعد دیکھنے میں آیا، کوئی روسی دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ پاکستان ایک اہم فریق ہوگا اور چاہئے کہ روس پاکستان کے لیے اپنے چینل کھلے رکھے۔ امریکی اخبار نے رشین اکیڈمی آف ملٹری سائنسز کے صدر اور افغانستان کے سابق صدر نجیب اللہ کے مشیر محمود گریوف کے حوالے سے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ سوویت روس کے بعد روسی حکومت نے باغیوں تک سے بھی روابط رکھے اور نجیب اللہ کو نہتا چھوڑ دیا تھا۔ امریکی افغانستان سے انخلاءکی باتیں کررہے ہیں۔ درحقیقت وہ جائیں گے نہیں اور وہی کچھ کرینگے جو انہوں نے عراق میں کیا اپنی کچھ فورسز چھوڑ جائینگے سنٹرل ایشیاءمیں اپنے اڈے برقرار رکھیں گے اور پاکستان میں بھی اپنی موجودگی قائم رکھیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، طالبان ہلاکتیں جاری رکھیں گے اور افغانستان سے منشیات کی سمگل ہوتی رہے گی اور بہت سارے مسائل موجود رہیں گے۔ امریکی اخبار کے مطابق پیوٹن کا مجوزہ دورہ پاکستان روس کے پاس پاکستان کے ساتھ باضابطہ طور پر روابط بڑھانے کا ایک بہترین موقع ہوسکتا تھا، تاہم ابھی تک یہ سوال موجود ہے کہ پیوٹن نے اپنے دورہ کیوں منسوخ کیا۔ اخبار کے مطابق روسی ماہرین بھی یہ کہنے سے قاصر ہیں کہ آخر پیوٹن نے اپنا یہ دورہ کیوں منسوخ کیا جس کی وجہ سے ماسکو کے ٹائم ٹیبل کو شدید دھچکا لگا بلکہ پاکستانی میڈیا میں بھی چہ میگوئیاں ہوتی رہیں اور اس سے عوام کے جذبات مجروح ہوئے۔ اخبار نے ماسکو کے روزنامے کومرسینٹ کے خارجہ امورکے کالم نگار سرگئی سڑوکان کے حوالے سے کہا ہے کہ ممکنہ وضاحت تو یہ ہے کہ صدر پیوٹن کھل کر بات کرنے والے شخص ہیں۔ سڑوکان کا کہنا ہے کہ ابھی تک کریملن کی جانب سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا کہ اگر مستقبل میں وہ پاکستان کا دورہ کرینگے تو وہ کب یہ دورہ کرینگے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہاں کیا سوچ چل رہی ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ وزیر خارجہ سرگئی لاروف پاکستان گئے ہیں تاکہ پاکستانی قیادت کو باور کرا سکیں کہ ماسکو میں مضبوط جذبات موجود ہیں ہم نے اب پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے کا موقع ضائع کردیا تو بعد میں ہمیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس راز کی طے میں پائپ لائن پالیٹیکس کارفرما ہے۔ روس کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اسلام پسند پھیل جائیں گے اور روس کو بچے کھچے ٹکڑے سنبھالنا ہونگے۔ روسی مبصرین کا خیال ہے پاکستان کی متحرک شراکت داری کے بغیر استحکام کی امید نہیں۔