• news

آئین پر عمل نہ کیا تو ایسا حکم جاری کریں گے کہ بلوچستان کیساتھ کوئی اور حکومت بھی جائے گی: چیف جسٹس

کوئٹہ (بیورو رپورٹ + نوائے وقت نیوز + ثناءنیوز + نیٹ نیوز) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ہمیں آئین کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔ کوئی آسمان گرے یا پہاڑ ٹوٹے، ہم آئین اور قانون کے تحت چلیں گے۔ آئین پر عمل نہ ہوا تو ایسا حکم جاری کریں گے کہ صوبائی حکومت ہی نہیں کوئی اور حکومت بھی جائے گی ابھی تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ایسا حکم جاری کرنے سے گریز کر رہے ہیں چاہتے ہیں جمہوریت اور ملک مضبوط ہو۔ بلوچستان میں کچھ اچھا نہیں ہوا سب باتیں ہیں گھر گھر میں آگ لگی ہوئی ہے آگے نہیں چلنے دیا جا رہا بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال دن بدن مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کو جلد پیش کیا جائے۔ بلوچستان پولیس کی کارکردگی صفر ہے حالات کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ واپسی ممکن نہ ہو ایف سی کے خلاف ثبوت آئے پھر بھی کچھ نہیں ہوا بدامنی ختم کرنے میں حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی صوبہ میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا اور نعشوں کا ملنا بند ہو جانا چاہئے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان ٹارگٹ کلنگ اور امن و امان کے حوالہ سے کیس کی سماعت سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں کی۔ سماعت شروع ہونے پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ایف سی کو پولیس کے اختیارات دئیے ایک ماہ ہو گیا نتائج سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت بلوچستان کے حالات کی درستگی میں سنجیدہ نہیں۔ صوبہ میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا اور نعشوں کے ملنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیرہ بگٹی مکمل طور پر ایف سی کے کنٹرول میں ہے۔ سول انتظامیہ بے اختیار ہے، ایڈمنسٹریشن ایف سی کے رحم و کرم پر ہے۔ ہمارے حکم کے تحت 30 پولیس اور ڈی ایم جی افسروں کو ایسے علاقوں میں لگائیں جہاں حالات خراب ہیں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افسروں نے ایک دن بھی صوبہ میں ڈیوٹی نہیں کی۔ نئے افسروں کو شورش زدہ علاقوں میں تعینات کیا جائے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں کہہ رہیں صوبہ میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا، ڈیتھ سکواڈ نہیں۔ چیف سیکرٹری کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں ایف سی کو دو ماہ کے لئے پولیس کے اختیارات دئیے اس پر جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھاکہ ایک ماہ ہو گیا ہے کیا نتائج نکلے نعشیں مل رہی ہیں اور ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ ایف سی کو پولیس کے اختیارات دینے کے بعد کیا بہتری آئی ریکارڈ پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سریاب میں تشدد ہو رہا ہے لوگوں کو مارا جا رہا ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایک اور درخواست آئی ہے کہ صوبہ میں روزگار نہیں جہاں بھوک اور افلاس ہو وہاں جر م کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم حیران ہیں کہ افسران کے ٹرانفسر ہم نے کرائے آپ کے پاس وسائل اور افرادی قوت ہے استعمال کریں لوگ جنازے رکھ کر احتجاج کر رہے ہیں حکومت کیا کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے مکالمہ میں کہا کہ لوگ کوئٹہ میں مسلح گھوم رہے ہیں کسی وکیل کو ساتھ لے جائیں وہ آپ کو بتائے بلوچستان سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔ اس سے بڑا مسئلہ ہو تو ہمیں بتایا جائے۔ لاپتہ افراد آپ کے پاس نہیں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں۔ ہمیں بتائیں رکاوٹیں کون ڈال رہا ہے اگر پولیس اپنے زیر کنٹرول پانچ فیصد علاقہ میں حالات کو کنٹرول کر لے تو باقی 95 فیصد حصہ میں حالات خودبخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے نتیجہ صفر ہے ایک ماہ گزرنے کے باوجود کارکردگی صفر ہے۔ سماعت کے دوران سپیکر بلوچستان اسمبلی سردار اسلم بھوتانی عدالت میں پیش ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں سپریم کورٹ کے احترام میں عدالت میں پیش ہوا ہوں بلوچستان کے معاملہ پر کوئی بھی مطمئن نہیں بلوچستان میں بہت زیادہ مسائل ہیں۔ سیاسی نظام کی مجبوریاں ہیں آئی جی اور چیف سیکرٹری ایماندار افسران ہیں یہ نہ حکومت کے سامنے بول سکتے ہیں اور نہ عدالت کے سامنے۔ صوبہ میں مزاحمتی تنظیمیں موجود ہیں جانی نقصان دونوں جانب سے ہو رہا ہے آئی جی اور چیف سیکرٹری ہماری نااہلی کا معاملہ اپنے سر لے لیتے ہیں، اس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آئی جی اور چیف سیکرٹری شریف لوگ ہوںگے مگر ہمیں نتائج چاہئیں۔ سابق چیف سیکرٹری سردار ناصر محمود کھوسہ ذمہ دار افسر تھے جب ان کی بات نہیں مانی گئی تو سیٹ چھوڑنے میں ایک منٹ نہیں لگایا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ سری لنکا میں ہم سے اچھے حالات نہیں پھر بھی وہاں ٹی 20 ورلڈکپ ہو گیا سارے صوبہ میں ایف سی کے لوگ مر رہے ہیں۔ غیر رجسٹرڈ گاڑیاں بند کرائیں، غیر قانونی اسلحہ اور راہداریاں بند کریں۔ غم اور پریشانی تو اس وقت ہوتی ہے جب انتظامیہ حالات ٹھیک کرنے کی خواہشمند نہ ہو۔ مسائل حل کرنے کی خواہش ہی نہیں بلوچستان پولیس اور انتظامیہ حالات ٹھیک کرنے کی خواہشمند نہیں۔ سپیکر بلوچستان اسمبلی بھی یہاں بیٹھے ہیں انہیں بھی لگ رہا ہے کہ صوبہ جل رہا ہے بلوچستان کے ہر گھر میں آگ لگی ہے، مار پیٹ سے مسئلہ حل ہوتا تو انگریز اس کام میں بہت تیز تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آئین پر عمل نہیں ہوتا تو بلوچستان مں حکومت کا کوئی جواز نہیں۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ 2010ءسے معاملہ سن رہے ہیں۔ اگر ایک فریم ورک بن جائے تو بہتر ہو گا چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئین پر عمل کرنا ہے۔ آئین کے مطابق چلیں گے اور حکم جاری کریںگے تو کوئی آسمان نہیں گرے گا۔ آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان حکومت کی کارکردگی صفر ہے، حکومت بدامنی ختم کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی، بلوچستان کے مسئلے پر آرمی چیف کا بیان حوصلہ افزا ہے، ہمیں بڑے اور بہتر منطقی انجام کی جانب جانا ہو گا۔ بلوچوں، پشتونوں اور فرقہ وارانہ کلنگ ڈیتھ سکواڈ ہی تو ہیں، عدالت نے کابلی گاڑیوں سے متعلق کسٹمز کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا۔ کلکٹر کسٹمز کو 11 اکتوبر کو طلب کر لیا گیا۔ ڈاکٹروں کے اغوا، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ ڈیرہ بگٹی کی صورتحال پر 13 اکتوبر کو تفصیلی جواب طلب کر لیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں آگ سلگ رہی ہے، ایف سی کو بلوحستان میں دوستانہ ماحول بنانا ہو گا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے آرٹیکل 9 کے تحت جان و مال کی حفاظت یقینی بنائیں، کیس کی سماعت آج پھر ہو گی۔

ای پیپر-دی نیشن