پگڑی کی توہین اور عمران کا اثاثہ
عمران خان ٹانک کے جلسے میں طرے والی پگڑی کے ساتھ نظر آیا۔ یہ ڈرامہ وہ سیاستدان بھی کرتے ہیں جنہیں عمران خان کرپٹ اور بزدل کہتا ہے۔ حتیٰ کہ جنرل مشرف نے بھی پگڑی پہن کر تقریر کی تھی۔ یہ پگڑی رحمان ملک نے بھی باندھی تھی۔ ایسی تصویریں ہماری سیاسی تاریخ میں عام ہیں۔ عمران خان بھی وہی کرتے ہیں جو دوسرے سیاستدان کرتے ہیں۔ ان کی سیاست دوسروں سے مختلف نہیں ہے۔
ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ عمران نے جلسے میں تقریر کے فوراً بعد پگڑی اچھال کر پھینک دی۔ یہ ان عمائدین کی توہین ہے جنہوں نے اسے عزت دی تھی۔ آج کل عمران پگڑیاں اچھالنے کی سیاست کر رہے ہیں۔ ان کی سیاسی گالم گلوچ سے کوئی سیاستدان نہیں بچا۔ اس کے بعد گالم گلوچ کی جاتی ہے تو وہ ناراض ہوتے ہیں۔ پگڑی کو اچھالنا پورے قبائلی علاقے کی توہین ہے۔ وہ دعوے کرتے ہیں مگر انہیں قبائلی روایات کا کچھ پتہ نہیں۔ پگڑی عزت کی علامت ہے وہ اس کیلئے جان قربان کرنا بھی ایمان سمجھتے ہیں۔ امریکی بھی بھاری پگڑیوں والوں سے ڈرتے ہیں۔
مجھے یاد ہے ایک بار ایم ڈی پی ٹی وی ارشد صاحب نے اسلام آباد بلایا۔ وہاں جا کے پتہ چلا کہ سرکاری کمپیئر نعیم بخاری کے ساتھ صدر جنرل مشرف کی کوئی بات چیت ہے۔ ہم صرف سننے والوں میں سے تھے۔ ارشد صاحب دوست تھے ہم مروت میں قابو آ گئے۔ پی ٹی وی اسلام آباد پہنچے۔ ایک کرنل صاحب سکیورٹی کے نام پر بے عزتی فرما رہے تھے۔ میری باری آئی تو میری پگڑی کیلئے فکرمندی کا اظہار کیا گیا۔ پگڑی اتارنے کیلئے کہا گیا۔ میں نے کہا کہ یہ ہماری روایات کے مطابق بے عزتی ہے۔ میں نے امریکہ جانے کی ایک دعوت صرف اسی لئے ٹھکرا دی تھی۔ میں نے کہا مجھے باوردی صدر سے ملنے کا شوق نہیں۔ فوج میں آپ کو مہمانوں کی عزت کرنا نہیں سکھایا گیا۔ آپ یہاں ایک ایسا آدمی کھڑا کریں جو ہمیں جانتا ہو اور بتائے کہ یہ عبدالقادر حسن ہے۔ یہ عطاءالحق قاسمی‘ حسن نثار اور اجمل نیازی ہے اور ہم اندر چلے جائیں۔ صدر زرداری کیلئے بے پناہ سکیورٹی کے باوجود ہم ایوان صدر چلے جاتے ہیں۔
گزارش یہ ہے کہ میں بہت سادہ آدمی ہوں۔ عاجزی محبت والوں اور قدر کرنے والوں کے سامنے فرض ہے۔ مگر فرعون اور کرپٹ کے سامنے عاجزی گناہ ہے۔ جن اہل قلم کو بلایا گیا ہے۔ وہ جنرل مشرف سے بہت زیادہ قیمتی بلکہ بیش بہا آدمی ہیں۔ پٹھان غیرت مند اور جرا¿ت مند ہوتا ہے۔ مہمانوں اور انسانوں کی قدر کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ پٹھان تھا جس نے اپنی سلطنت گنوا دی۔ اپنے ساتھی شہید کروا لئے مگر مہمان کو دشمن کے حوالے نہ کیا اور اسے ہمارے ملک میں قتل کرنے کا ڈرامہ کیا گیا اور کسی حکمران سیاستدان نے مذمت نہ کی۔ عمران سے ایک ہی اختلاف ہے کہ وہ انسانوں بلکہ دوستوں اور مہمانوں کی قدر کرنے والے نہیں۔
پگڑی قبائلیوں اور بلوچوں کے لباس کا حصہ ہے۔ عمران کو تو کیا یاد ہو گا۔ میانوالی کے درویش لیڈر مولانا عبدالستار خان نیازی کی طرے والی پگڑی پورے پاکستان میں مشہور تھی۔ مجھ سے کئی لوگ پوچھتے ہیں کہ مولانا نیازی کی پگڑی میں طرہ تھا تو میں کہتا ہوں کہ وہ بہت بڑے لیڈر اور عاشق رسول تھے۔ ان کے پاس طرہ¿ امتیاز بھی تھا۔ وہ نوائے وقت کے عاشق تھے۔ آخری عمر میں انہوں نے ایک بے کار وزارت قبول کر لی تو مجھے دکھ ہوا۔ وزارتیں ساری بے کار ہوتی ہیں۔ وہ اپنے ادنیٰ سے کارکن کیلئے بھی اشارہ کرتے تو اسے وزیر بنا لیا جاتا۔ میں نے کالم میں ذکر کیا تو وہ ناراض ہو گئے۔ اندر سے وہ جانتے تھے کہ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ میں نے خود ان کی زبان سے سنا تھا کہ میں لیلی¿ٰ وزارت کو ٹھوکر مارتا ہوں۔ پھر ان کے چند مفاد پرست ساتھیوں نے انہیں اس لیلیٰ کا مجنوں بنا دیا۔ چوری کھانے والے مجنوں عمران خان کے ارد گرد بھی جمع ہو رہے ہیں۔ یہ صرف چوری کھانے والے چوری کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ وہ جو عمران خان کے جانثار نوجوان ہیں۔ ان کو کبھی عمران سے ہاتھ ملانے کا موقع بھی نہیں ملا ہو گا۔
میں ابھی وزیرستان امن مارچ بلکہ ’ٹانک امن مارچ“ کا ذکر نہیں کر سکا۔ اس پر لکھوں گا۔ مجھے پرویز رشید کا بیان بہت اچھا لگا۔ یہ عمران کے حق میں بیان ہے۔ عمران 001 نمبر سے آنے والی فون کال نظرانداز کر کے مارچ جاری رکھتے تو خوشی ہوتی۔ عوام کیا سمجھیں کہ کہیں یہ مک مکا تو نہیں۔ ڈرون حملے رکوائے بغیر عمران خان کو واپس نہیں آنا چاہئے تھا۔ وہ جنوبی وزیرستان کے بارڈر پر بیٹھ جاتے۔ سب لوگ اس کے ساتھ دھرنا دیتے۔ ڈرون حملے روکنے کا اعلان تو امریکہ کرتا۔ فوزیہ قصوری‘ ناز بلوچ کہتی ہیں کہ اس طرح ڈرون حملوں کی بات مغرب امریکہ تک پہنچ گئی تو کیا پہلے نہیں پہنچی تھی۔ خود امریکہ میں کئی لوگ ڈرون حملوں کے خلاف مہم شروع کر چکے ہیں۔ عمران سے پہلے کئی لیڈر وزیرستان میں جلسہ کر چکے ہیں۔ کیا وہ بزدل اور صرف عمران بہادر ہے؟
عمران خان نے کہہ دیا کہ ہمیں جہاں روکیں گے ہم رک جائیں گے۔ حق کی راہ میں سفر رکتا تو نہیں۔ وہ پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر گزر گئے جہاں فوج کی چیک پوسٹ تھی وہاں ٹھہر گئے۔ کچھ لوگ آگے نکل گئے تھے مگر عمران خاں پیچھے رہ گئے۔ لانگ مارچ مُک مکا ہے تو امن مارچ چُک چکا ہے۔ عمران کبھی اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے اتنے قریب چلے جائیں کہ ان کی آواز امریکہ کے سفیر تک پہنچ جائے۔ سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر عمران کی آواز پہچانتے تھے۔ یہ تفصیل اگلے کالم میں لکھوں گا۔ البتہ منٹر نے یہ ہنٹر چلایا تھا کہ عمران خان اور نوازشریف سے ہم رابطے میں ہیں۔
قبائلی علاقوں میں بڑے سیر سپاٹے اور شکار وغیرہ عمران نے کئے ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب لکھی تھی ”غیرت مند مسلمان“۔ کتاب کا نام پہلے ”غیرت مند پٹھان“ تھا۔ پھر نجانے کس مصلحت اور مشاورت کے بعد تبدیل کر دیا گیا۔ عمران کا کمپرومائزنگ رویہ بہت پرانا ہے۔ اب بھی وہ کمپرومائزنگ سیاست کر رہے ہیں۔ پہلے شمالی وزیرستان پھر جنوبی وزیرستان اور پھر وہ وہاں بھی نہ گئے۔ انہیں چاہئے کہ وہ سرکاری وزیرستان چلے جائیں۔ اسلام آباد میں وزیروں شذیروں کی رہائش گاہیں ہیں۔یہ بھی وزیرستان ہے۔ اقتدار میں آئے بغیر یہاں بھی انہیں کوئی نہیں آنے دے گا۔
عمران کی اس کتاب کی تقریب ہوئی تو مجھے بھی گفتگو کیلئے بلایا گیا تھا۔ حاضرین میں جمائما بھی موجود تھی۔ وہ ایک بہتر خاتون ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ عمران کہتا ہے اب وہ میری بیوی نہیں ہے مگر میری دوست تو ہے۔ عمران کے بچے بھی ابھی اس کے اور اپنے نانا نانی کے پاس ہیں۔ عمران سے پوچھا گیا کہ شمالی وزیرستان سے ڈرون حملوں کے متاثرین آئے ہیں۔ ان کیلئے کچھ کریں گے؟ عمران نے کہا کہ یہ خیراتی ٹور نہیں۔ امن مارچ ہے۔ عمران کہتے رہتے ہیں کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اثاثے بیرون ملک ہیں۔ تو مجھے بتایا جائے کہ اپنے بچوں سے بڑا اثاثہ کیا ہے۔ عمران کے بچے بیرون ملک ہیں۔ لیکن کہاں ہیں؟