• news

سپریم کورٹ نے خط کے مسودے کی منظوری دیدی

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ثناءنیوز) عدالت عظمیٰ نے ”این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت“ کے مقدمہ کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے سوئس حکام کو لکھے جانے والے خط کا نیا مسودہ منظور کر لیا ہے تاہم فاضل عدالت نے خط کو حتمی طور پر سوئس حکومت کو بھجوانے سے پہلے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس کو واپس لینے سے متعلق حکومتی استدعا مسترد کر دی ہے جبکہ حکومت نے خیرسگالی کے طور پر نظرثانی کی درخواست واپس لے لی ہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس اعجاز احمد چودھری، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اطہر سعید پر مشتمل 5 رکنی خصوصی بنچ نے بدھ کے روز مقدمہ کی سماعت کی تو وفاقی وزیر قانون و انصاف فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں خط کا ترمیم شدہ مسودہ پیش کیا جس پر فاضل ججز نے اس کا جائزہ لینے کے لئے عدالتی کارروائی میں کچھ دیر کے لئے وقفہ کر دیا اور مشاورت کے لئے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے چیمبر میں لے گئے جہاں جائزہ لینے کے بعد باہمی مشاورت سے اسے منظور کر لیا گیا اور جب دوبارہ کارروائی شروع ہوئی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کر کے کہا کہ خط کا متن بہت اچھا ہے، پہلی مرتبہ مخلصانہ کوشش سے لکھا گیا ہے۔ فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ خط کا مسودہ این آر او کے حوالے سے عدالت کے فیصلہ کے پیراگراف 178 سے مطابقت رکھتا ہے جس کے متن میں لکھا گیا ہے کہ ”سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کا اس حوالے سے لکھا گیا خط واپس لیا جائے اور ایسے تصور کیا جائے کہ جیسے یہ کبھی لکھا ہی نہیں گیا تھا“۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے ”ملکی اور بین الاقوامی قوانین اور آئین کے تحت اگر صدر پاکستان کو دنیا بھر کے دےگر سربراہان مملکت کی طرح استثنیٰ اور اپنے دفاع کا حق ہے تو انہیں سوئس عدالتوں میں بھی قانون کے مطابق فراہم کیا جائے“۔ عدالتی کارروائی صدر کو استثنیٰ سے مشروط ہو گی۔ عدالت کی جانب سے خط کا مسودہ منظور کئے جانے کے بعد وزیر قانون نے کہا کہ اب جبکہ عدالت خط کے مسودہ سے مطمئن ہے تو وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا جائے تاہم فاضل عدالت نے نوٹس واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک سوئس اٹارنی جنرل کی جانب سے اس خط کی وصولی کی تصدیق نہیں ہو جاتی ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بھی عدالت سے توہین عدالت کا نوٹس واپس لینے کی استدعا کی تو جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اس کا جائزہ آئندہ سماعت پر لیا جائے گا جس پر انہوں نے کہا کہ پھر فی الحال اس مقدمہ کے حوالے سے دائر نظرثانی کی درخواست کی سماعت کر لی جائے اور خط بھجوانے کا معاملہ بھی آئندہ تاریخ تک م¶خر کر دیا جائے جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا آپ کو اپنے وزیر قانون کی بات پر اعتماد نہیں ہے۔ اس موقع پر وزیر قانون نے مداخلت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ان کی نشست پر بٹھا دیا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علیزئی کے ساتھ چند لمحے مشاورت کی اور فاضل عدالت سے نظرثانی کی درخواس واپس لینے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے نمٹا دیا۔ عدالت کے استفسار پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ خط وزارت خارجہ کے ذریعے سوئٹزر لینڈ میں پاکستانی سفیر کو بھجوایا جائے گا اور وہ خود یا ان کا نمائندہ اسے سوئس اٹارنی جنرل تک پہنچائے گا۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ خط انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں لکھا جائے گا، انہوں نے کہا کہ حکومت کو سوئس حکام تک خط پہنچانے کے لئے چار ہفتے کی مہلت درکار ہے جسے عدالت نے منظور کر لیا اور کہا کہ چار ہفتے بعد اس کی وصولی کی رسید عدالت میں پیش کی جائے۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے رےمارکس دےتے ہوئے کہا کہ وزےر قانون نے خوبصورت تقرےر کی اس پر شکرےہ ادا کرتے ہےں۔ عدالت نے استفسار کےا کہ کےا ےہ تقرےر انہوں نے خود تےار کی تھی؟ جسٹس کھوسہ نے خط کا جائزہ لےتے ہوئے قرار دےا کہ ہر مرتبہ خط مےں بہتری آ رہی ہے اس مرتبہ پہلے سے زےادہ بہتری ہوئی ہے ۔ بعد ازاں ججز خط کے مسودے پر جائزہ لےنے کے لئے چےمبر مےں چلے گئے ۔ وزےر قانون کا ان سے کہنا تھا کہ اگر کوئی معاونت درکار ہو تو عدالت انہےں چےمبر مےں بلا سکتی ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس خط کی تعرےف کرتے ہےں لگتا ہے کہ مسئلہ کے حل سے چند انچ کی دوری پر ہےں۔ خط مےں بہتری وزےر قانون کی کمٹمنٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ ججز چےمبر مےں مشاورت کے بعد کمرہ عدالت مےں واپس آئے تو اس موقع پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آج بدھ ہے جس کے بارے مےں کہتے ہےں ” بدھ کم سدھ “ اور عدالت نے مقدمہ مےں اپنا عبوری حکم لکھواتے ہوئے قرار دےا کہ حکومت کی جانب سے سوئس حکام کو لکھے جانے والے خط کے مسودہ کو شائع کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ بعدازاں عدالت نے مقدمہ کی سماعت 14 نومبر تک کے لئے ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ سوئس حکام کو لکھا جانے والا خط دو صفحات اور تےن پےراگراف پر مشتمل ہے جو سےکرٹری قانون ےاسمےن عباسی کے دستخطوں سے جاری کےا گےا ہے۔ بعد ازاں حکومت نے عدالت کے 18 ستمبر کو جاری کئے گئے حکم کے خلاف نظر ثانی کی درخواست بھی واپس لے لی۔

ای پیپر-دی نیشن