بلاتاخیر عام انتخابات کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت
احمد کمال نظامی
ایک عام پاکستانی بھی آج ےہ بات کہنے پر مجبورکہ پاکستان کی 65سالہ تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو اتنا جھوٹ اور مکروفریب تھا اتنی ملاوٹ ناجائز منافع خوری اور اس قدرعدم تحفظ اور نااہلی کرپشن کبھی نہ تھی۔ حکومتی رٹ جس چیز کا نام ہے قبائلی علاقوں اور صوبہ خےبر پی کے سمےت آج کراچی اور بلوچستان میں بھی نظر نہیں آتی۔ اس کے باوجود صدر آصف علی زرداری جو حکمران پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں ایک بار نہیں متعدد باراس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ چاہے آسمان ہی کیوں نہ کر پڑے حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور آئینی مدت پوری ہونے کے بعد ہی نگران اور عبوری حکومت کے لےے اپوزیشن سے مشاورت کی جائے گی۔ موجودہ حکومت جمہوری نہیں بلکہ غاصب حکومت ہے اور ان غاصبوں سے اور پاکستان کی رٹ پاکستان کے علاقوں پر قائم کرنے کے لئے ان کی رخصتی امر لازم کا درجہ رکھتی ہے اس رخصتی کا ایک ےہی راستہ ہے کہ ملک میں فوری طورپر عام انتخابات کا اعلان کیا جائے لیکن مصیبت یہ ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں حکمرانوںکے پاس یہ ہتھیار نہیں رہتا کہ اگرہماری حکومت ناکام تھی اور حکومت اپنی رٹ کھو چکی تھی تو پھر اس نے اپنی آئینی مدت کیسے پوری کی جناب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان میں امن و امان سے متعلقہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے ان دوٹوک الفاظ میں پہلی بار حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہو کوئی آسمان گرے یا پہاڑ ٹوٹے ہم آئین اور قانون کے تحت چلیں گے۔ آئین پر عمل نہ ہوا تو ایسا حکم جاری کریں گے کہ بلوچستان حکومت ہی نہیں کوئی اور حکومت بھی جائے گی۔ حکومت بدامنی ختم کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ بلوچستان میں گھر گھر آگ لگی ہوئی ہے حکومت صوبہ میں کابلی گاڑیاں بند کرائیں، اسلحہ اور ڈیتھ سکواڈ بند کرائے ۔ گویا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حکمرانوں کو باور کرایا ہے کہ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیا جائے۔ دوسری طرف چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف ایک اور سازش تیارکی جا رہی ہے اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایک ایسا سکینڈل منظرعام پر آنے والا ہے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کو مستعفی ہوئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہو گا اور یہ سکینڈل اکتوبر کے آخر میں یا نومبر میں منظرعام پر آ جائے گا اےسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمران پارٹی نے اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ماضی کی روایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ججوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے پلان پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے قومی اسمبلی میں قومی احتساب بل کے نام پر جو بل پیش کیا گےاہے۔ اس بل کو اپوزیشن والے نیا این آر او قرار دیتے ہوئے مخالفت کر رہے ہیں اور اپوزیشن تو ایک طرف رہی اتحادی پارٹی اے این پی نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے۔ دوہری شہریت کے معاملہ نے دونوں بڑی جماعتوں کو آزمائش میں مبتلا کر دیا ہے اور سانپ کے منہ میں چھپکلی والا معاملہ نظر آتا ہے جبکہ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہر حال میں عمل کرنے کا برملا کہہ چکے ہیں۔ اس صورتحال مےں جب حکومت تو اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اب عزت سادات کو محفوظ رکھنے اور جمہوری اقدار و آئین کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ صدر آصف علی زرداری غاصب حکومت کا کردار ادا نہ کریں اور آئین و قانون کا احترام کرتے ہوئے بلاتاخیرانتخابات کے انعقاد کا اعلان کرے کیونکہ آئین بھی یہ کہتا ہے کہ اگر حکومت ناکام ہو جائے تو حکومت قائم کرنے کے لئے نیا مینڈیٹ حاصل کیا جائے ۔لہٰذا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریمارکس نے جو نئی صورت حال پیدا کر دی ہے اور حکمرانوں کو بند گلی کا راستہ دکھا دیا ہے اس سے کڑوٹ لےتے ہوئے حا لات کا ادارک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔