• news

اور اب ملالہ موڑ!

سکول بس راستے میں روک لی گئی! اور صرف لڑکیوں سے نیچے اُترنے کے لیے کہا گیا! اور پھر اِن میں سے ملالہ یوسف زئی کی شناخت کی گئی! شناخت مکمل ہوتے ہی اُسے جاننے اور پہچاننے سے عاری طالبان کی گولی اُس کے سر میں اُتر گئی! اُسے بچانے کے لیے آگے آنے والی بچیاں بھی فرش پر زخم زخم تڑپتی رہ گئیں!
ملالہ یوسف زئی کے آخری ریکارڈڈ بیان کے مطابق وہ کئی دِنوں سے ایسے خواب دیکھ رہی تھی، جن میں اُسے کبھی طالبان اور کبھی فوجی ہیلی کاپٹرنظر آ رہے تھے! مگر، وہ اِن خوابوں کی تعبیر نہیں جانتی تھی! شاید اسی لیے وہ ’آج کوئی لڑکی سکول نہیں جائے گی‘ کے حکم کی تعمیل نہ کر سکی! اور طالبان کے لیے اُسے ہدف بنانا لازم ہو گیا!
اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضلِ عمیم کی چھاﺅں میں وہ بہتر سرجری کے لیے بیرونِ ملک روانہ کر دی گئی ہے! اور پوری قوم اُس کی زندگی کے لیے دعاگو ہے!
حیران کن امر ہے کہ یہ خبر سامنے آنے کے بارہ گھنٹے تک انتظار کے بعد جناب بلاول بھٹو زرداری نے کہا ، ’ملالہ یوسف زئی میری بہن تھی! وہ محترمہ بے نظیر شہید کی بیٹی تھی! وہ پورے پاکستان کی بیٹی تھی!‘ اس بیان میں ’تھی‘ کا لفظ بہت کچھ کہہ رہا تھا! اور لگ رہا تھا کہ شاید اُن کے پاس بہتر معلومات ہیں! اور ہم سوچ رہے تھے کہ اگر جنابِ ذوالفقار علی بھٹو زندہ ہوتے! اور وہ بابِ وزیرستان سے پلٹ کر اپنی کامیابی کا ڈنکا پیٹتے گھر لوٹ گئے ہوتے! اور ایسے میں اُنہیں کسی ایسی ہی خبر کا سامنا کرنا پڑ جاتا، تو، وہ ایک ایسا حشر اُٹھا دیتے کہ قاتلوں کے لیے اس زمین پر ٹکنا ممکن نہ رہ جاتا! مگر، جنابِ عمران خان، جنہیں ’مواقع‘ ضائع کرتے چلے جانے کا شان دار ریکارڈ مہیا ہے! اس موقع پر بھی ملالہ یوسف زئی کے لیے ’پاکستان کی بیٹی‘ کے سوا کچھ نہیں کہہ سکے! اور اُس پر حملہ آوروں کے گروہ کے بارے میں صرف چُپ سادھے رکھنے کے سوا اپنے لیے کوئی رستہ نہیں نکال سکے!
جنابِ نواز شریف نے ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب کی طرف سے اُسے بیرونِ ملک علاج کی سہولتیں فراہم کرنے کا حکم صادر کر دیا! جنابِ شہباز شریف نے ملالہ یوسف زئی کے علاج کے لیے تمام سہولتیں مہیا کرنے اور اُنہیں بیرون ملک روانہ کرنے کے لیے تمام ابتدائی اقدامات پر عمل درآمد کا حکم بھی جاری کر دیا! صبح سویرے فراہم ہونے والی اطلاعات کے مطابق پاک فوج کے ممتاز نیورو سرجنز کے بورڈ نے اُن کے لیے بیرونِ ملک علاج لازم قرار دیتے ہوئے اُنہیں ایمبولینس طیارے میں سوار کرا دیا!
پاکستانی زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے قائدین اور معززین نے ملالہ یوسف زئی پر کیے جانے والے حملے کی شدید مذمت کی ہے! اِن میں بہت بڑے بڑے نام شامل ہیں! مگر، اس خبر کے سامنے آتے ہی ملالہ یوسف زئی کے بے داغ کردار پر کیچڑ اُچھالنے کا کام بھی ساتھ کے ساتھ شروع کر دیا گیا! مگر، صرف 15منٹ بعد اس کام کا آغاز کرنے والے اینکر پرسن کی یک دم کایا کلپ ہو گئی! اور وہ ملالہ یوسف زئی کے لیے سراپا تحسین بن کے رہ گئے! یوں بھی اب پینل میں محترمہ عاصمہ جہانگیر شامل ہو چکی تھیں! اور اُن کے ساتھ نمٹنا ہمارے معزز ’تجزیہ کار اینکرپرسن‘ کے لیے ممکن نہیں رہا تھا!
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں جان سے ہاتھ دھوتی ہوئی بچی کی صحت کے لیے دُعا کے ساتھ ساتھ اُس کی کردار کشی کا کام بھی شروع کر دیا جانا لازم ٹھہر چکا ہے! کیونکہ کچھ لوگ پاکستان ’ ہیروز‘ کے لیے کوئی اچھا معاشرہ ثابت نہ کرنے کی مہم پر نکلے ہوئے ہیں! اور ’امن کی آشا‘ کے پسِ پردہ کارفرما ہاتھ کسی لمحے ہاتھ روکنے کے لیے تیار نہیں! ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے محسن ہیں! ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی ہمارے محسن ہیں! اور پاکستان میں سب سے پہلے ایٹم توڑنے والے سائنس ڈاکٹر محمد رفیع چودھری بھی ہمارے محسن ہیں! مگر، کریڈٹ کے چکر میں ڈال کر سب کوبلاوجہ ایک دوسرے کے تقابل میں لاکھڑا کیا جاتا ہے! اور کوشش کی جاتی ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی ’بھد‘خود اُڑائیں! تاکہ ’تیلی لگانے والا ہاتھ‘پہچان میں نہ آ سکے!
ہمارے ملک میں یورینیم 235اور یورینیم 238 تاریخ میں پہلی بار کیمیائی طور پر الگ کیا گیا! اور کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر صدیقی کا یہ کارنامہ پوری دُنیا سے تعریف اور تحسین حاصل کرگیا! مگر، ہمارے اپنے ملک میں اِسے ’ایک بے کار کوشش‘ قرار دے کر اِس تجربے کی کامیابی پر ناکامی کا پردہ ڈال دیا گیا!
ہماری دُعا ہے کہ ملالہ یوسف زئی صحت یاب ہوکر وطن واپس پہنچے! اور اپنی باقی زندگی نارمل انداز میں گزارے! مگر، ہمیں یقین ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر بندوقیں تاننے والے کردار کبھی کسی کے ہاتھ نہ آ سکیں گے! کاش! ایسا نہ ہو! لیکن، اس کے سوا کچھ اور کیسے ہو سکتاہے!
جنابِ عمران خان نے عالمی برادری کے نام ایک بہت بڑا پیغام عام کیا تھا! مگر، کتنی حسرت کی بات ہے کہ صرف ایک گولی نے اُن کے اِتنے بڑے پیغام کی جگہ وہ پیغام عام کر دیا، جسے بین الاقوامی طاقتیں عام کر رہی ہیں ! اور کرتی چلی جا رہی ہیں!
ہم یہ سوچ سوچ کر بھی پریشان ہو رہے ہیں کہ جنابِ عمران خان اس صورتِ حال میں کہیں بھی، تو، کیا؟اُن کی 8سال کی محنت صرف ایک لمحے میں ضائع کر دی گئی! اور وہ اُس کا نوحہ بھی نہ پڑھ سکے! یہ نوحہ پڑھنے کا فریضہ بھی جنابِ بلاول بھٹو زرداری کو ادا کرنا پڑا! اور ملالہ یوسف زئی کے علاج معالجے کے لیے احکامات بھی جنابِ آصف علی زرداری کو جاری کرنا پڑے! لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ ایسے معاملات میں سیاسی فائدے نہیں !بلکہ اصولی موقف ہی کام آتے ہیں!

ای پیپر-دی نیشن