مسئلہ کشمیر کے حل میں اقوام متحدہ کا نظام ناکام ہو گیا : ترجمان دفتر خارجہ
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + ایجنسیاں) پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی م¶قف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی قیادت مسئلہ کشمیر سمیت تمام ایشوز حل کرنے کی خواہش رکھتی ہے، دونوں ممالک دوطرفہ مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اگر چین، امریکہ اور روس جیسے دوست ممالک کوئی کردار ادا کر سکیں تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان معظم اے خان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ دیگر ایشوز پر پاکستان کا م¶قف بالکل واضح ہے، صدر آصف علی زرداری نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران واضح کیا کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ترجمان نے روسی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ پاکستان کو مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ دورے کے دوران تعمیری گفتگو ہوئی۔ حالیہ برسوں میں پاکستان اور روس کے دوطرفہ تعلقات میں قابل ذکر بہتری آئی ہے، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے ماسکو کا دورہ کیا۔ روسی صدر کے دورہ پاکستان کی تاریخوں پر دونوں ملک کام کر رہے ہیں، صدر پیوٹن خود صدر زرداری کے ساتھ سربراہ ملاقات کیلئے دلچسپی رکھتے ہیں۔ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کے دورہ پاکستان کے بارے میں ترجمان نے بتایا کہ یہ سرکاری دورہ ہے، وہ ذاتی طور پر پاکستان آئے ہیں جس سے باہمی دلچسپی کے امور پرتبادلہ خیال کا اچھا موقع ملا۔ ملالہ یوسفزئی پر حملے کے خلاف عالمی ردعمل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ امریکہ سمیت ہر ایک نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے، پاکستان کی حکومت اور سیاسی رہنماﺅں نے بھی اس حملے کی پرزور مذمت کی، وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے انہیں پاکستان کے مستقبل کی علامت قرار دیا۔ انہوں نے ملالہ پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوںکے افغانستان سے آنے کے بارے میں سوال پر کہا کہ وہ اس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں لیکن یہ ایک قابل مذمت کارروائی ہے۔ افغان وزیر خارجہ اور اعلیٰ امن کونسل کے چیئرمین کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہوئی ہے جو ان کی مصروفیات کے سبب ابھی عمل میں نہیں آیا۔ تاریخوں کا اعلان جلد ہو گا۔ افغانستان خود مختار ملک ہے اور یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ کس ملک کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ انہوں نے افغانستان سے عسکریت پسندوں کی در اندازی کے متعلق سوال پر کہا کہ یہ معاملہ افغان حکومت اور ایساف کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ زیر بحث لایا جاتا ہے۔ بوسنیا کے صدر نے صدرآصف علی زرداری کی دعوت پر پاکستان کا سرکاری دورہ کیا جس کے دوران دفاع اور تجارتی تعلقات میں اضافے کیلئے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ ترجمان نے شام اور ترکی کے درمیان کشیدگی کے بارے میں ایک سوال پر کہا کہ پاکستان نے شام کی صورتحال پر اصولی م¶قف اپنا رکھا ہے، اسے وہاں بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ انہوں نے شام کی طرف سے ترک علاقے میں فائرنگ کے واقعہ کو قابل مذمت قرار دیا اور توقع ظاہر کی کہ شامی حکومت ایسی کارروائیوں سے گریز کرے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ شام کے مسئلے کو پر امن طور پر حل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ روس، امریکہ اور چین سمیت کوئی بھی ملک اگر مسئلہ کشمیر کے حل میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے تو اسے خوش آمدید کہیں گے۔ پاکستان اور بھارت سمجھدار ملک ہیں وہ اپنے مسائل خود حل کر سکتے ہیں، مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں اقوام متحدہ کا نظام ناکام ہو گیا ہے اور صدر زرداری نے جنرل اسمبلی میں اس بات کی نشاندہی کی تھی۔ صدر آصف علی زرداری ای سی او سربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے 15 اکتوبر کو آذربائیجان جائیں گے۔ وزیراعظم بہت جلد ایشیائی تعاون کی تنظیم میں شرکت کے لئے کویت جائیں گے۔ پاکستان شام کے مسئلے کا پرامن حل چاہتا ہے اور امید ہے شام کی موجودہ حکومت لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کو قابو میں لائے گی۔ بوسنیا کے ساتھ تجارت، دفاع اور اقتصادی معاملات پر مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں۔ ملالہ پر حملہ پاکستان کے مستقبل اور امید پر حملہ ہے۔ یونان میں پاکستانی تارکین وطن پر حملوں کا معاملہ یونان کی حکومت کے ساتھ اٹھایا گیا ہے۔ سوئس حکومت کو خط کے بارے میں ترجمان نے سوال کا جواب گول کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں جانچ کریں گے۔ بھارت اپنے مسائل خود حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ روس اور چین پاکستان بھارت مسائل کے حل کے لئے مثبت کردار ادا کریں تو خیرمقدم کریں گے۔ پاکستان اور بھارت دونوں تمام مسائل بامقصد انداز میں حل کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روس کے ساتھ تعلقات میں مثبت تبدیلی نظر آئی ہے۔ پاکستان اور روس میں دوطرفہ تعلقا ت اقتصادی، معاشی و دفاع سمیت دیگر شعبوں میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ترجمان نے کہا ہے کہ حکومت کی ج انب سے ابھی تک سوئس حکام کو این آر او عملدرآمد کیس کے حوالے سے خط جانے کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں کی گئی، حکومت وزارت خارجہ کو جب سوئس حکام کو خط کا مسودہ بھجوانے کے لئے کہے گی وزارت خارجہ اس پر عمل درآمد کرے گا۔