آرمی چیف کا دہشت گردی کیخلاف ہر قیمت پر جنگ جاری رکھنے کا عزم کیا یہ شمالی وزیرستان میں اپریشن کے آغاز کا عندیہ ہے؟
چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے نزدیک انسانی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں‘ سفاکانہ کارروائیاں کرنیوالے طالبان خود ساختہ نظریات کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ہم دہشت گردی کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رہے گی جس کیلئے ہم ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ گزشتہ روز سی ایم ایچ پشاور میں ملالہ یوسف زئی کی عیادت کرتے ہوئے اسکے والدین سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ ملالہ پر حملہ کرنیوالے اپنے مخصوص مقاصد میں ناکام ہو چکے ہیں‘ دہشت گردوں کو حدیث مبارک کے سنہری حروف کا بھی پاس نہیں جن میں حضرت نبی کریم کا یہ واضح ارشاد ہے کہ ”بچوں سے شفقت نہ کرنے والا ہم میں سے نہیں“ جبکہ یہی اقدار ہمارے اسلامی معاشرے کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو قوم کے عزم کا درست اندازہ نہیں‘ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گردی کے واقعات سے قوم کو مزید متحد ہونے کی تقویت ملتی ہے۔
مینگورہ کی معصوم اور ہونہار کمسن طالبہ ملالہ یوسف زئی کو ٹارگٹ کرکے اس پر قاتلانہ حملہ کی واردات بلاشبہ دہشت گردی کی انتہائی گھناﺅنی واردات ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے‘ کم ہے اور اسی تناظر میں پوری قوم اس سفاکانہ واردات پر سراپا احتجاج اور دہشت گردوں کو بے نقاب کرنے کی متقاضی ہے۔ امن و سلامتی کا پیغامبر ہمارا دین اسلام تو بالخصوص بچوں کے ساتھ صلہ رحمی کا درس دیتا ہے اس لئے کوئی کلمہ گو اپنے ایمان پر قائم رہتے ہوئے بلاجواز انسانی خون بہانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ چہ جائیکہ معصوم بچوں کا خون بہایا جائے۔ اس حوالے سے ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کرنیوالے سفاک ملزمان کسی قسم کی انسانی ہمدردی کے مستحق ہیں نہ انہیں مسلمان کہا جا سکتا ہے اس لئے آرمی چیف نے ایسے گھناﺅنے دہشت گرد عناصر کےخلاف کسی بھی قیمت پر جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تو وہ اس میں حق بجانب ہیں‘ تاہم یہ سوچنے والی بات ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کن حالات میں ہوا ہے‘ اگر ان حالات کی روشنی میں ملالہ پر حملے کے پس منظر کا جائزہ لے کر کوئی نتیجہ اخذ کیا جائے تو اس سے یقیناً دہشت گردی کے قلع قمع میں مدد ملے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ 11 ستمبر 2011ءکو نیویارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن پینٹاگون پر بیک وقت فضائی دہشت گردی نے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو داﺅ پر لگایا تھا کیونکہ اس واقعہ کے بعد ہی امریکہ نے نیٹو ممالک کی معاونت سے افغانستان میں فوجی پڑاﺅ ڈال کر اس خطہ میں دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ شروع کی جس میں پوری افغان دھرتی کو تہس نہس کیا گیا اور جب ہمارے اس وقت کے جرنیلی آمر کمانڈو مشرف نے ایک امریکی ٹیلی فونک کال پر ڈھیر ہوتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمہ کی اس جنگ میں پاکستان کو امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنایا‘ تواسی دن دہشت گردوں نے ہماری سرزمین کا رخ کرلیا اور یہاں قائم امن و آشتی کی فضا گولہ بارود سے خون آلود اور بدبودار ہونا شروع ہو گئی۔ مشرف نے افغانستان میں تعینات امریکی نیٹو فورسز کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کیلئے ملک کے چار ایئربیسز امریکہ کی تحویل میں دے کر وہاں سے ڈرون اڑانے اور قبائلی علاقوں میں حملہ آور ہونے کی اجازت دے دی جبکہ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر امریکی گن شپ ہیلی کاپٹروں نے بھی ہمارے قبائلی علاقوں میں بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان واقعات میں ملک کے شہری قبائلی باشندوں بشمول خواتین اور بچوں کی جانیں ضائع ہونا شروع ہوئیں تو اسکے ردعمل میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ نتیجتاً جو طالبان افغان دھرتی پر نیٹو فورسز کیخلاف صف آراءتھے‘ پاکستان میں نیٹو فورسز کے فضائی حملے شروع ہونے پر انہوں نے ہماری سرزمین کی جانب رخ کرلیا۔ ان مزاحمت کاروں کیخلاف مشرف کے دور حکومت تک پاکستان کے اندر فوجی اپریشن کا آغاز نہیں ہوا تھا‘ تاہم موجودہ منتخب حکمرانوں نے اقتدار میں آنے پر مذاکرات کے بعد طالبان کے فضل اللہ گروپ کی جانب سے قبائلی علاقوں میں نفاذ شریعت کے اعلان کے بعد امن جرگوں کے ذریعہ قیام امن کی کوششیں ناکام رہیں جس کے نتیجے میں سوات‘ مالاکنڈ‘ اپر‘ لوئر دیر کے علاقوں میں فوجی اپریشن کا آغاز کیا گیاجسے پہلے اپریشن راہ حق اور پھر اپریشن راہ راست کا نام دیا گیا۔ اس اپریشن کے دوران چند سو شدت پسندوں کی تلاش میں لاکھوں شہری بے گھر اور انکے کاروبار تباہ ہوئے جبکہ سینکڑوں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ دہشت گرد تو محفوظ ٹھکانوں میں چلے گئے مگر اپریشن میں عام شہریوں کی کمبختی آتی رہی جس کا ردعمل خودکش حملوں میں اضافے کی صورت میں مزید بدامنی اور قومی معیشت کی تباہی کی صورت میں سامنے آیا ‘ نتیجتاً اپریشن دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر نہ صرف جاری رکھا گیا بلکہ اس میں توسیع بھی کی جاتی رہی۔ اگرچہ حکومت اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے آج بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ جنوبی وزیرستان بشمول سوات‘ مالاکنڈ کو دہشت گردوں سے پاک کرکے وہاں دوبارہ امن قائم کردیا گیا ہے مگر ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ اور اس سے پہلے قبائلی علاقوں میں ہونیوالی دہشت گردی کی اکا دکا وارداتوں سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ دہشتگردوں نے صرف اپنے ٹھکانے بدلے ہیں‘ عزائم ہرگز نہیں۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں کا جوڑ ڈرون حملوں اور فوجی اپریشن کے ردعمل سے لگایا جاتا ہے اس لئے جب تک دہشت گردی کے روٹ کاز کا قلع قمع نہیں کیا جاتا‘ اس وقت تک ملک میں قیام امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی اور دہشت گردی کا روٹ کاز افغان دھرتی سے امریکی نیٹو فورسز کے اپریشن کے بعد فرار ہونیوالے دہشت گردوں کا پاکستان میں پناہ لینا ہے۔یہ فورسز یہاں موجود رہیں گی جس کا عندیہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل راسموسین کے گزشتہ روز کے اس بیان سے بھی ملتا ہے کہ ہمیں افغانستان سے نکلنے کی کوئی جلدی نہیںتو امریکی پالیسی کے تحت دنیا بھر کے دباﺅ کے باوجود ہماری دھرتی پر ڈرون حملے بھی ہوتے رہیں گے اور ہم پاکستان کا رخ کرنیوالے شدت پسندوں سے نمٹنے کیلئے فوجی اپریشن کا دائرہ وسیع کرتے رہیں گے۔
موجودہ فضا میں ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے اور تحریک طالبان کے ترجمان کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ ہی عالمی میڈیا پر پاکستان میں دہشت گروں کے محفوظ ٹھکانے ہونے کا پروپیگنڈہ اتنی سرعت کے ساتھ کیا گیا کہ ڈرون حملے برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ شمالی وزیرستان میں اپریشن کا آغاز کرنے کا جواز بھی پیدا ہو گیا۔ چنانچہ گزشتہ روز امریکی ڈرونز نے شمالی وزیرستان میں تابڑ توڑ حملے کرکے میزائلوں کی بارش کردی جس میں چھ افراد جاں بحق اور تین زخمی ہوئے۔ اسی طرح اب عسکری ذرائع سے شمالی وزیرستان میں اپریشن کا آغاز کرنے کا عندیہ بھی مل رہا ہے۔ اس تناظر میں ہمیں جذباتی پن سے باہر نکل کر پوری سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ معصوم بچی ملالہ پر قاتلانہ حملے کے بعد ہم اس حقیقت سے کیسے نبٹیں گے کہ ان علاقوں میں چند سو شدت پسند پوری پاکستانی ریاست اور فوج کو محاصرے میں لئے ہوئے ہیں۔اگر وزیر داخلہ رحمان ملک کے پاس یہ اطلاعات موجود ہیں کہ ملالہ پر حملہ کرنیوالے افغانستان سے آئے ہیں‘ تو پھر کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے رحمان ملک کے پاس موجود اطلاعات کی بنیاد پر ٹھوس اور جامع انکوائری کرالی جائے اور ملالہ پر حملے میں جو بھی عناصر ملوث ہیں‘ انہیں بے نقاب کرکے کیفر کردار کو پہنچایا جائے اور شمالی وزیرستان میں اپریشن کے ممکنہ نقصانات کا بھی اندازہ لگالیا جائے۔ دہشت گردی کے خاتمہ کی اس جنگ میں ہم پہلے ہی اپنے چالیس ہزار سے زائد شہریوں بشمول سیکورٹی فورسز کے ارکان کی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور قومی معیشت کو 70 ارب ڈالر سے زائد کے نقصان کا جھٹکا لگا چکے ہیں۔ لیکن ملالہ کے ساتھ ہونےوالے واقعات نے پاکستانیوں کے سامنے یہ واضح کر دیا ہے کہ سوات میں اپریشن کئے جانے کے باوجود حکومت کی رٹ ہے‘ نہ فوج اور قانون نافذ کرنےوالے اداروں کا کنٹرول۔ ہم مزید کتنے نقصان کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ یہ ہماری حکومتی‘ سیاسی‘ دینی اور عسکری قیادتوں کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔ آخر امن کے قیام کیلئے کیا آخری قیمت ہے؟ اور ہم اسے ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔