• news

مینہ نہ برسا پر گھٹا چھائی بہت

مکرمی!چیف جسٹس صاحب نے ایک حالیہ بیان میں ارشاد فرمایا کہ آسمان گرے یا پہاڑ ٹوٹے عدلیہ آئین کے تحت ہی چلے گی۔ انہوں نے مزید یہ بھی فرمایا کہ وہ صبر سے کام لے رہے ہیں تاکہ ملک میں جمہوریت قائم رہے۔ عدل کی افادیت ایک مسلم ریاست میں ویسے بھی بدرجہ اتم ہے کیونکہ اسلامی ریاست کے بنیادی ارکان عدل کے بغیر نامکمل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دور موجود کے مسلمانوں نے اس کی اہمیت و کردار کو فراموش کرنے کی حد تک بھلا دیا ہے۔ مغرب کا انتہائی زوال پذیر نظام ہائے زندگی اگر محض قانون کی بالادستی سے قائم ہو سکتا ہے تو اسلامی طرز زندگی میں ایسی کونسی بے ضابطگی ہے کہ اسے قابل عمل باور کرانا بھی کار دشوار ہو گیا ہے۔ یقیناً ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہی کہ اسلامی نظام حیات کو عدل و انصاف کی جس چاردیواری کی ضرورت دیگر نظام ہائے حیات کی مانند از بس ضروری ہے وہ اپنی پوری چارہ سازی کے ساتھ فی زمانہ میسر نہیں۔ پاکستان میں انصاف کی صورت احوال خاصی رقیق ہو چلی ہے۔ وجوہات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ زیر بحث لایا جا سکتا ہے مگر حاصل شاید کچھ خاطر خواہ نہ ہو سکے۔ آئین کا پیچیدہ ہونا اور انصاف کی رسائی ہرکس و ناکس تک نہ ہونا ایک بہت بڑے طبقے کو مظلومیت کے خط ناخوشگوار پر رہنے پر مجبور رکھے ہوئے ہے۔ مزید یہ کہ ارباب بست و کشاد کی قانون کو نافذ کرانے میں عدم سنجیدگی بہت سے دست درازوں کو پاﺅں پھیلانے میں مدد دینے کا باعث بن رہی ہے۔ عدالتوں کو انصاف فراہم کرنے میں درپیش مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ بات جب تک عدل کے ایوانوں میں پہنچتی ہے خرابی بسیار اپنا کام مکمل کر چکی ہوتی ہے۔ انصاف کا بروقت فراہم نہ ہونا ایک بہت بڑی ناآسودگی کے فروغ کا باعث ہو گیا ہوا ہے۔ عوام الناس کا انصاف کی طلب میں اہل منصف کو اپنا مسیحا گرداننا ہرگز بعید از قیاس نہیں اور شاید پاکستان کے باسی اس حاجت مندی کےلئے بڑی سے بڑی قربانی کو بھی کھیل ہی سمجھیں لیکن کوئی چارہ گری تو کرے۔ بات کہنے کی نہیں لیکن عدل کی زنجیر لٹکانے والے اگر بلکتے ہوئے مظلوموں کو محض دلاسے ہی دیتے رہے تو شاید شوق انتظار بھی ان بے سروسامانوں کو زندگی کی امید دلانے میں نارسا ہی رہے۔

ای پیپر-دی نیشن