صدر اور آرمی چیف کی آئینی ذمہ داریوں کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ریمارکس
سیاستدانوں کو ماضی کی غلطیوں سے بہرصورت سبق سیکھنا چاہیے
چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے قرار دیا ہے کہ صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے‘ وہ گروپ نہیں بنا سکتا‘ اگر ایسا کیا جائے تو یہ بدقسمتی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں قائم عدالت عظمیٰ کے سہ رکنی بینچ کے روبرو آئی ایس آئی کے فنڈز کی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کیخلاف ایئرمارشل (ر) اصغر خان کی آئینی درخواست کی سماعت کے موقع پر باور کرایا کہ عدلیہ آئین‘ اور فوج ملک کی سرحدوں کی محافظ ہے‘ قومی مفاد یہ ہے کہ فوج سرحدوں کی حفاظت کرے اور اندرونی معاملات منتخب حکومت چلائے۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ اقتدار میں کس کو لانا ہے‘ یہ عوام کا کام ہے‘ آج ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے‘ اسکے پیش نظر متعلقہ ادارے اپنی غلطیوں پر نظرثانی کریں۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ایوان صدر میں بیٹھی شخصیت ان معاملات میں کیوں ملوث ہوئی؟ اب عدالت سے کسی کو غیرآئینی کام کا لائسنس نہیں ملے گا۔ دوران سماعت فاضل عدالت نے باور کرایا کہ جمہوریت اور آئینی ادارے بچانے کیلئے مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ سپریم کورٹ اب تک کوشش کررہی ہے کہ نظام ڈی ریل نہ ہو‘ یہ عدلیہ کی طرف سے شعوری کوشش ہے مگر حکومت نے جنرل (ر) مشرف کے 3 نومبر 2007ءکے ماورائے آئین اقدام کیخلاف عدالت عظمیٰ کے فیصلہ میں دی گئی ہدایات پر آج تک عملدرآمد نہیں کیا۔ گزشتہ روز دوران سماعت ایوان صدر کی جانب سے فاضل عدالت کو بتایا گیا کہ ایوان صدر میں کوئی سیاسی سیل ہے نہ اس کا کوئی ریکارڈ موجود ہے۔
آئی ایس آئی کے مبینہ سیاسی سیل کیخلاف تقریباً 18 سال قبل ایئرمارشل (ر) اصغر خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی آئینی درخواست کے ذریعے درحقیقت اقتدار کے ایوانوں میں جمہوری نظام کیخلاف ہونیوالی سازشوں کو بے نقاب کیا گیا جو درخواست گزار کے بقول آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کے ذریعے پروان چڑھتی رہی ہیں۔ اسی حوالے سے اس درخواست میں آئی ایس آئی کا سیاسی سیل غیرقانونی اور اختیارات سے متجاوز قرارد دینے کی استدعا کی گئی تاکہ سسٹم کیخلاف ہونیوالی سازشوں کا قلع قمع ہو سکے۔ اس درخواست کی سماعت کی گزشتہ تاریخوں پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی اور معروف بنکار یونس حبیب کے قلمبند کرائے گئے بیانات سے غلام اسحاق خان کے دور میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کی معاونت سے آئی ایس آئی کے خفیہ فنڈز میں سے مخصوص مقاصد کے تحت مختلف سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کرنے کی بادی النظر میں تصدیق ہو چکی ہے جبکہ اس کیس کی سماعت کے دوران ہی درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے فاضل عدالت کو اس امر سے بھی آگاہ کیا گیا کہ آئی ایس آئی کا سیاسی سیل آج بھی موجود ہے یقیناً اسی حوالے سے ایوان صدر میں ہونیوالی سیاسی سرگرمیاں بھی اس کیس کی سماعت کے دوران زیر بحث آئیں جس کے تناظر میں فاضل چیف نے گزشتہ روز باور کرایا کہ صدر چونکہ آئین کی رو سے وفاق کی علامت ہوتا ہے‘ اس لئے انہیں کسی ایک پارٹی یا گروپ کے ساتھ منسوب نہیں ہونا چاہیے۔
اگر ہم نے سیاسی نظام کو ماضی جیسی ریشہ دوانیوں سے بچانا اور مستحکم بنانا ہے تو پھر سیاست دانوں کو یقینًا ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے جس کی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی تلقین کی ہے۔ اس سلسلہ میں بطور خاص ایوان صدر سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے اس لئے فوکس ہوا ہے کہ اب اگلے عام انتخابات کے مراحل شروع ہو رہے ہیں اور اگر ملک میں آزادانہ‘ غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانا مقصود ہے جس کیلئے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم بھی پرعزم ہیں تو حکومتی‘ انتظامی مشینری بالخصوص ایوان صدر کا انتخابی عمل میں قطعاً عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور اس سلسلہ میں سپریم کورٹ اصغر خان کیس میں آئین کی روشنی میں امور حکومت و مملکت کی انجام دہی کے سلسلہ میں کوئی گائیڈ لائن متعین کرتی ہے تو اسے ماضی کی طرح انا کا مسئلہ بنانا چاہیے نہ عدلیہ سے ٹکراﺅ کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔
صدر کے اختیارات اور ذمہ داریوں سے متعلق آئین کی دفعات 48, 42 اور دیگر متعلقہ دفعات میں مکمل وضاحت موجود ہے جس کے تحت صدر کا منصب سیاسی نہیں ہوتا کیونکہ یہ منصب وفاق کی علامت ہے اور اس حیثیت میں صدر کے منصب پر موجود کسی بھی شخصیت کا سیاسی مجبوریوں اور مفادات سے بالاتر ہونا ضروری ہے تاکہ کسی کو اس منصب پر فائز شخصیت کی جانبداری پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ چونکہ صدر مملکت نے امور حکومت بہتر طور پر اور ملک اور عوام کے مفاد کے مطابق چلانے کا وفاقی حکومت کو آئینی مشورہ دینا ہوتا ہے‘ اس لئے حکمران پارٹی سے صدر کی وابستگی امور حکومت کی انجام دہی کے معاملہ میں کئی قباحتوں کا باعث بن سکتی ہے جبکہ صدر کو وفاق کی علامت بنانے کی آئین کی منشاءیہی ہے کہ وہ تمام فریقین کیلئے قابلِ قبول ہو تاکہ سسٹم خوش اسلوبی سے چلتا رہے۔ آئین کی اسی منشاءکی روشنی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چودھری فضل الٰہی صدر مملکت کے منصب پر منتخب ہوئے تو انہوں نے پیپلز پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا‘ اسی طرح صدر مملکت کے منصب سے غلام اسحاق خان کے مستعفی ہونے کے بعد وسیم سجاد صدر مملکت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے بھی اپنی پارٹی مسلم لیگ (ج) کو خیرآباد کہہ دیا جس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدر مملکت کے منصب پر فائز ہونیوالے پیپلز پارٹی کے جیالے سردار فاروق لغاری نے بھی پارٹی کے عہدے اور بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جنرل ضیاءاور جنرل مشرف نے ماورائے آئین اقدامات کی بنیاد پر خود کو صدر مملکت کے منصب پر فائز کرنے کے بعد کنگز پارٹیاں ضرور بنائیں مگر اپنے اقتدار کے دوران انہوں نے اپنی تشکیل کردہ پارٹیوں کی صدارت پر بھی خود کو فائز کرنے سے گریز کیا۔ ایوب خان نے اگرچہ صدر مملکت کے منصب پر فائز رہتے ہوئے کنونشن لیگ کی صدارت بھی قبول کرلی تھی‘ تاہم اس وقت ملک میں صدارتی نظام پر مبنی 1962ءکا آئین رائج تھا جس کے تحت صدر کی ذات ہی طاقت و اختیار کا محور بنائی گئی تھی جبکہ 1973ءکے وفاقی پارلیمانی آئین کے نفاذ سے صدر کا کردار آئینی سربراہ مملکت کا بن گیا ہے جس میں ملک کے چیف ایگزیکٹو جیسے سیاسی کردار کی قطعاً گنجائش نہیں۔
صدر آصف علی زرداری کو اس آئینی تقاضے کے تحت صدر مملکت کے منصب پر منتخب ہوتے ہی اپنی پارٹی سے وابستگی رضاکارانہ طور پر ختم کر دینی چاہیے تھی مگر انہوں نے اسکے برعکس نہ صرف پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ بھی سنبھالے رکھا بلکہ ایوان صدر کو حکمران پیپلز پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی بنالیا جس پر اعتراض کی گنجائش نکلنا فطری امر تھا۔ اب انکی ایک پارٹی کے حق میں سیاسی سرگرمیوں کے باعث انکی وفاق کی علامت کی آئینی حیثیت پر انگلی اٹھتی ہے تو یقیناً عدلیہ کے روبرو صدر مملکت کے آئینی کردار کا سوال اٹھایا جانا تھا چنانچہ پہلے لاہور ہائیکورٹ میں ایک آئینی رٹ درخواست دائر ہوئی جس میں صدر کے دو عہدوں کو خلاف آئین قرار دینے کی استدعا کی گئی۔ عدالت عالیہ نے بھی آئینی تقاضوں کے تحت صدر مملکت سے توقع ظاہر کی کہ وہ سیاسی اور حکومتی میں سے ایک عہدہ چھوڑ دینگے مگر عدالت عالیہ کی ایک سال قبل دی گئی اس ابزرویشن پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا چنانچہ اصغر خان کیس میں اب صدر کے سیاسی کردار کی صدائے بازگشت سپریم کورٹ میں بھی سنائی دے رہی ہے جس میں عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے غلام اسحاق خان کے دور میں ایوان صدر کی جانب سے جمہوری نظام کیخلاف ہونیوالی ریشہ دوانیوں کا حوالہ دے کر ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے اور معاملات درست کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے جو سسٹم کی بقاءاور استحکام ہی سے متعلق ہے۔ اس تناظر میں عدالتِ عظمیٰ نے آرمی چیف کی آئینی ذمہ داریوں کی بھی نشاندہی کر دی ہے۔ اگر تمام آئینی ادارے اور شخصیات آئین کے فریم ورک میں رہ کر اپنے اختیارات کو بروئے کار لانا اپنا شعار بنا لیں تو یقیناً کسی کو جمہوریت کےخلاف ماضی جیسی کسی مہم جوئی کی جرا¿ت نہیں ہو سکتی۔ سپریم کورٹ اس بارے میں سیاست دانوں کو تلقین نہ کرے تو بھی انکی ذمہ داری ہے کہ وہ ماضی کے تلخ تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جمہوریت کے تحفظ کا فریضہ ادا کریں جو آئین میں متعین ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس کی روشنی میں بالخصوص حکمران جماعتیں سسٹم کے تحفظ و استحکام کیلئے اپنا فریضہ ادا کرنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیں گی۔ اب بہتر ہو گا کہ ہر ایشو پر خود کو عدلیہ کے مقابل لانے کی روش اختیار نہ کی جائے۔