ججز‘ ارکان پارلیمنٹ کی طرح جرنیل بھی آئین کے پابند ہیں : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں + بی بی سی) سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق اصغر خان کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ایم آئی کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) حامد سعید نے تحریری جواب جمع کرا دیا۔ عدالت عظمیٰ میں وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز نے 8 کروڑ روپے کے حوالے سے آئی ایس آئی کے خفیہ اکا¶نٹ سے متعلق جواب عدالت میں جمع کرایا۔ سپریم کورٹ نے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ تفصیلات نہیں جو ہم نے مانگی تھیں، درست معلومات دی جائیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ ججز اور ارکان پارلیمنٹ کی طرح جرنیل بھی آئین کی پاسداری کے پابند ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نوے کی دہائی میں سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے معاملے سے متعلق اصغر خان کے مقدمے کی سماعت کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے وزارت دفاع کے نمائندے سے اس اکا¶نٹ کی تفصیلات پیش کرنے کو کہا۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا یہ اکا¶نٹس خفیہ ہیں ان کی تفصیلات کو عام نہیں کیا جا سکتا جس پر چیف جسٹس افتحار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ ان تفصیلات کے بارے میںآئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے کہا تھا کہ سات کروڑ روپے کی رقم سیاست دانوں میں تقسیم کی گئی جبکہ باقی ماندہ رقم اس اکا¶نٹ میں تھی جو آئی ایس آئی کی زیر نگرانی تھے۔ چیف جسٹس نے کہا جن کو آپ خفیہ رکھنے کا کہہ رہے ہیں وہ تفصیلات پہلے ہی سے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا اس اکا¶نٹ کی بنک سٹیٹمنٹ لائیں تو سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ اس معاملے کے اہم کردار ملٹری انٹیلی جنس کے سابق افسر بریگیڈیئر (ر) حامد سعید بھی عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا تحریری بیان جمع کرایا۔ انہوں نے اپنی 21 سالہ پرانی ڈائری بھی عدالت میں پیش کی جس میں رقوم کی تقسیم کا ریکارڈ موجود ہے۔ انہوں نے پیراگراف ایک سے 8 خفیہ رکھنے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ ہر عہدیدارکا فرض ہے کہ آئین پرعمل کرے، آئین کے تحت ذمہ داریاں ادا کرنا کسی پر احسان نہیں۔ اٹارنی جنرل کی استدعا پر سماعت آج تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔ رقوم کی تقسیم میں کلیدی کردار ادا کرنے والے بریگیڈئیر (ر) حامد سعید نے فاضل عدالت کو بتایا کہ وہ 1990ءکے الیکشن کے دوران سندھ میں ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ تھے، جولائی 1990 ءسے نومبر 1991ءتک اسی عہدے پر تعینات رہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس کا مطلب یہ کہ الیکشن سے پہلے تعینات ہوئے اور الیکشن کے بعد ہٹائے گئے۔ حامد سعید نے کہا کہ جو بھی رقوم کی تفصیلات ہیں وہ تحریری جواب میں لکھ دی ہیں جس کے بعد سپریم کورٹ نے جواب کی نقل اٹارنی جنرل کو دینے کی ہدایت کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وزارت دفاع کے جواب میں 8 کروڑ روپے کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ جنرل (ر) اسد درانی نے خود کہا تھا 14 کروڑ روپے کی رقم میں سے 8 کروڑ بچے تھے جنہیں مخصوص اکاﺅنٹ میں جمع کروا دیا گیا تھا۔ ریکارڈ کے مطابق ایک مرحلے پر رقم کی تقسیم کے حوالے سے جنرل (ر) آصف جنجوعہ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ عدالت نے وزارت دفاع کے ڈائریکٹر کمانڈر شہباز کو 8 کروڑ کی درست معلومات اسی روز جمع کرانے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ وقتی طور پر بریگیڈیئر (ر) حامد سعید کی دستاویز عام نہیں کر رہے، عدالت میں صرف پیراگراف 9 سے 12 تک بات ہو گی۔ حامد سعید نے کہا کہ میری معروضات کا ایک پیرا گراف فوج کی بدنامی کا باعث بن سکتا ہے۔ فوج کو بدنام کرنا آئین و قانون کے تحت قابل سزا جرم ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اگر فوج کی بدنامی ہو تو انہیں پھانسی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت خود اس بارے میں فیصلہ کرے کہ اسے خفیہ رکھنا ہے کہ نہیں، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ عبدالغفور نے فاضل عدالت کو بتایا کہ رحمن ملک نے بطور ڈائریکٹر ایف آئی اے اس کیس میں کام کیا تھا۔ وہ اس حوالے سے عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ضرورت پیش آئی تو رحمن ملک سے مدد لی جائے گی۔ جنرل( ر) اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت سے استدعا کی کہ فوج میں اصلاحات کا حکم بھی دیا جائے، آئی ایس آئی کو فوج کے ڈسپلن میں لایا جائے اور آئی ایس آئی کو چیف ایگزیکٹو کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا یہ ہمارا کام نہیں۔ اسلم بیگ 1988ءسے 1991ءتک فوج کے سپہ سالار رہے، اسلم بیگ، صدر اسحاق سے کہہ سکتے تھے کہ وہ رقوم تقسیم میں فریق نہیں بنیں گے، انہیں اسحاق خان کے سامنے مزاحمت کرنی چاہئے تھی اور کوئی تبدیلی لا سکتا تھا تو وہ آپ کا موکل تھا۔ اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ اسلم بیگ نے 17 اگست 1988ءکو ملکی حالات پر کنٹرول کیا تھا جس پر اسلم بیگ کو 1989ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت نے تمغہ جمہوریت عطا کیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ جب آپ اس ملک کے شہری ہیں تو آپ آئین کی پابندی کریں۔ کسی کو تمغہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آئین کے تحت ذمہ داریاں ادا کرنا کسی پر احسان نہیں۔ صدر کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر محمد عامر کا جواب بھی سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ایوان صدر میں ریکارڈ تلاش کیا، 1990ءمیں ایوان صدر میں الیکشن انفارمیشن سیل کی موجودگی کی کوئی فائل نہیں ملی۔ جماعت اسلامی کی طرف سے سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ جسٹس (ریٹائرڈ) شیخ خضر حیات نے کہا کہ 1990ءکے الیکشن میں آئی جی آئی کا حصہ ہونے پر جماعت اسلامی نے کسی سے کوئی رقم لی اور نہ ہی ہمارے خلاف کو ئی ثبوت پیش کیا گیا ہے۔ لیفٹینٹ جنرل (ر) اسد درانی کے بیان حلفی میں مبہم اور غیر واضح انداز میں صرف جماعت اسلامی لکھا ہوا ہے یہ نہیں بتایا گیا کہ کس نے کس کو رقم دی تھی۔ جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے الزام کی مکمل تردید کرتے ہوئے بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کرایا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق اکرم شیخ نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ 1973ءسے قبل کمشن حاصل کرنے والے فوجیوں کو دوبارہ آئین کے تحت حلف اٹھانے کے احکامات جاری کئے جائیں۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ان کے م¶کل اسلم بیگ نے آئین کے تحت نہیں بلکہ آرمی ایکٹ کے تحت حلف اٹھایا لہٰذا ان پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام درست نہیں اور آئین کے آرٹیکل چھ کا اطلاق نہیں ہوتا۔