عنوان کیا دوں
مکرمی! میرے پیارے ملک میں ایک آدمی نے پچھلے ساڑھے چار سال سے اٹھارہ کروڑ عوام اور اس ملک کے تمام اداروں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ سب کو بے بس کر رکھا ہے۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ قوم کو سزا دی جا رہی ہے یا اپنی ہی ہزاروں برائیوں کی وجہ سے سزا پا رہی ہے یااللہ تعالیٰ نے اسے نوازا ہے۔ اس کے ساتھ جو اتحادی ملے ہوئے ہیں وہ بھی کسی طرح اس سے کم نہیں لیکن میں اسے ان اتحادیوں کا گرو کہوں گا۔ یہ وہ اتحادی ہیں جو صرف اور صرف اپنی اپنی ذات کے گرد گھومتے ہیں جن کو صرف اور صرف اپنے مفادات کے علاوہ اور کسی کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں۔ اداروں کی بندر بانٹ کر کے ان اداروں کو خوب لوٹا گیا اب اس ملک کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جو اپنے پیروں پر خود کھڑا ہو سکے۔ لوٹ میں میں حصہ لینے کےلئے ان اداروں پر ایسے ایسے لوگوں کو سربراہ بنایا گیا جو کہ لوٹ مار کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ ان لوگوں نے بھی کمال کرتب دکھائے اور کرپشن میں نئی نئی جدت پیدا کی گئی۔ یہ بھی صرف اور صرف اسی کی سوچ کی غمازی کرتی ہے۔ کرپشن کے باقاعدہ فارمولے بنائے گئے۔ ایک ادارہ بچ گیا تھا شائد قدرت نے اس ادارے سے اس ملک کےلئے کوئی کام لینا ہے۔ یہ ادارہ اپنے آپ کو بچاتا ہوا چلا آ رہا ہے لیکن موصوف اور اس کے اتحادی مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ اس کو بھی برباد کر دیا جائے اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں۔ اس ادارے کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے اور ساتھ ساتھ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ ہم اس ادارے کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ سچ ہے کہ اونٹ کا دودھ پینے والا بہت کینہ پرور ہوتا ہے۔ اللہ بچائے!(ریاض محمود باجوہ ۔ گوجرانوالہ)