فیصلہ توقعات کے مطابق ‘ کاش یہ 16 سال پہلے ہوتا : اصغر خان
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) تحریک استقلال کے سربراہ ائرمارشل (ر) اصغر خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے فیصلہ ہماری توقعات کے مطابق ہے۔ کاش یہ فیصلہ 16سال قبل ہو جاتا تو آج ملک کے حالات بہت بہتر ہوتے۔ عدالت کا یہ فیصلہ تاریخی اور عوامی اہمیت کا حامل ہے جس کے ملک کی سیاسی صورتحال پر دوررس نتائج مرتب ہوں گے، عوام کو شفاف طریقے سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع میسر آئے گا۔ عدالتی فیصلے کے بعد اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت نے توقع کے مطابق فیصلہ دیا اور تسلیم کیا کہ 1990ءکے انتخابات میں دھاندلی ہوئی، عوامی رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کے لئے رقوم کا بے دریغ استعمال کیا گیا، طویل عرصے کے انتظار کے بعد عدالت سچائی کو عوام کے سامنے لئے آئی۔ ہمیں اپنی تاریخ سے سیکھنا ہو گا اور حقیقی جمہوریت کے لئے انتخابات میں اوچھے ہتھکنڈوں کے استعمال کو روکنا ہو گا۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے کر انتخابات میں فوج کے کردار کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے اور واضح کیا کہ عوامی حق رائے دہی پر اثر انداز ہونے کے لئے اگر کسی بھی قسم کا کوئی سیل کام کر رہا ہے تو اسے فی الفور ختم کیا جائے۔ اصغر خان نے کہا ہے کہ اب حکومت کو چاہئے کہ وہ فیصلہ پر من و عن عمل کرے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرکے آئندہ کے لئے مثال قائم کر دی جائے تاکہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوئی جرات نہ کر سکے۔ اصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ملکی تاریخ میں فوج افسروں کے خلاف پہلی بار فیصلہ آیا۔ اسد درانی اور اسلم بیگ کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ معاملات کا جائزہ لے کر مزید احکامات جاری کر سکتی ہے۔ جن کے نام آئے ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ اب حمید گل یا کوئی دوسرا انہیں کہہ سکتا کہ ہم نے قومی مفاد کیلئے یہ کام کیا۔ پیسے لینے والے سیاستدانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ قوم سے معافی مانگیں، سزا وہی کاٹے گا جس نے حکم دیا، ملکی تاریخ کو کٹہرے میں لاکھڑا نہیں کر سکتے۔ الیکشن سیل کے تمام کام غیرآئینی اور غیرقانونی تھے۔ ایف آئی اے ابتدائی تفتیش کے بعد ذمہ داروں کے خلاف فوجداری کارروائی کر سکتی ہے تاہم اب وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالتی فیصلے پر عمل کرائے بصورت دیگر عدالت بھی فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ لے سکتی ہے جیسا این آر او کیس میں عدالت نے کیا ہے۔ عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنا حکومت کے لئے ممکن نہیں۔ فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا تو عدالت کوئی بنچ بنا سکتی ہے ۔ یہ پہلا قدم ہے جو ہمیں اٹھانا ہو گا۔ عدالت نے کہا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں عوام کا حق سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیاستدانوں کے خلاف معاملہ گواہی کے حوالے سے چلے گا۔عدالت نے اسلم بیگ اور اسد درانی کا نام لے کر کارروائی کا حکم دیا، عملدرآمد نہ ہو تو این آر او کی طرح عمل درآمد بنچ بنایا جا سکتا ہے۔ دریں اثناءایک انٹرویو میں ائرمارشل (ر) اصغر خان نے کہا کہ کسی بھی سول یا ملٹری ادارے کے ملازمین کو اپنے افسروں کی جانب سے ملنے والا غیرقانونی حکم نہیں ماننا چاہئے۔ میں نے 1942ءمیں 21 سال کی عمر میں پیرپگاڑا کے قافلے پر حملہ کرنے کا غیرقانونی حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا جس پر انکوائری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔