انٹرنیشنل ورلڈ الیون کی 2 نمائشی میچوں کے لئے پاکستان آمد
چودھری محمد اشرف
مارچ 2009ءسے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہیں جس کی بحالی میں ابھی مزید کتنا وقت لگے گا اس کے بارے میں کہنا قبل ازوقت ہو گا تاہم اتنا ضرور ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین چودھری ذکاءاشرف نے جب سے بورڈ کا چارج سنبھالا ہے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طریقے سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ غیر ملکی ٹیموں کو پاکستان آنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی ان کوششوں کو بعض مفاد پرست عناصر منفی رنگ دیکر اپنی سیاست کو چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض لوگ تو عہدوں کے حصول کے لئے مخالفت برائے مخالفت پر اترے ہوئے ہیں۔ کرکٹ حلقوں کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی سی بی کو منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کی پروا کئے بغیر کرکٹ کی بہتری کے لئے کام کرنے کی کوشش کو جاری رکھنا چاہئے۔ چیئرمین پی سی بی نے عہدہ سنبھالتے ہی بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی جس میں انہیں کامیابی بھی نصیب ہو گئی تھی اور بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے پر راضی ہو گیا تھا۔ مہمان ٹیم کے بورڈ اور حکومتی ارکان کو جس طرح لاہور اور اسلام آباد میں سکیورٹی انتظامات سے آگاہ کیا گیا اس بات میں کوئی شک نہیں پایا جا رہا تھا کہ وفد کے واپس اپنے ملک پہنچتے ہی حالات مختلف ہو جائیں گے۔ دونوں بورڈز اور حکومتوں کے درمیان معاملات طے پانے کے ساتھ ساتھ میچز کا شیڈول بھی جاری کر دیا گیا تھا لیکن بنگلہ دیش کے ایک شہری کی جانب سے اپنی مقامی عدالت میں بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستانکے حوالے سے حکم امتناعی حاصل کر لیا جس کے بعد دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈز بے بس ہو گئے۔ چیئرمین پی سی بی نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی سطح پر جس اچھے طریقے سے دیگر بورڈز کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ چیئرمین پی سی بی نے عہدہ سنبھالتے ہی اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ تمام بورڈز کے ساتھ معاملات میں بہتری لائیں گے۔ سابقہ دور میں بعض ناگزیر وجوہات کی بناءپر پاکستان کرکٹ بورڈ دنیا کے دیگر بورڈ سے دور ہو گیا تھا یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے سخت جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں جلد سے جلد انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو کیونکہ جب تک ملک میں ایسا نہیں ہو گا تب تک ہمارے ملک میں بنے انٹرنیشنل سٹیڈیمز کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پاکستانی قوم کھیلوں سے پیار کرنے والی قوم ہے خاص طور پر کرکٹ سے اس کی گہری محبت ہو چکی ہے۔ ملک یا بیرون ملک کرکٹ مقابلوں میں قومی ٹیم شریک ہو تو یہ ہر وقت اپنی ٹیم کو سپورٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ شائقین کی خواہش ہے کہ ہر میچ میں فتح ہماری ہی ٹیم کا مقدر بنے لیکن بدقسمتی سے ہمیں اپنی تمام کرکٹ دیار غیر میں جا کر کھیلنا پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے شائقین کرکٹ کو براہ راست میدانوں میں آکر اپنے ہیروز کی حوصلہ افزائی کرنے کا موقع بھی نہیں مل رہا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی خواہش ہے کہ ہمارے مل میں راتوں رات انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی ہو جائے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی اس بات پر راضی ہو گی کہ پاکستان میں حالات بہتر ہو گئے ہیں اور کسی غیر ملکی ٹیم کے کھلاڑیوں کو یہاں کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آئے گا۔ آئی سی سی کی اجازت کے بغیر کوئی بھی ٹیم پاکستان کے دورہ کے لئے راضی نہیں ہو گی۔ گذشتہ چار سالہ دور میں آئی سی سی کے اہم عہدوں پر بھارتی لابی چھائی ہوئی تھی لہٰذا یہ توقع کرنا کہ ان کے دور میں پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی ممکن ہو سکتی تھی تو یہ دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں تھا۔ تاہم آئی سی سی صدر اور چیف ایگزیکٹو عہدوں پر نئے افراد کا تقرر ہو گیا ہے لہذا توقع کی جا سکتی ہے کہ اب پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی میں آئی سی سی بھی اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ بہرکیف کراچی میں سندھ کے صوبائی وزیر کھیل ڈاکٹر محمد علی شاہ کی کوششوں سے غیر ملکی کھلاڑیوں پر مشتمل ایک ٹیم پاکستان کا دورہ کر رہی ہے جسے انٹرنیشنل ورلڈ الیون کا نام دیا گیا ہے۔ شروع میں تو ڈاکٹر محمد علی شاہ کی جانب سے اس ٹیم کو ورلڈ الیون کے نام سے پکارا جاتا رہا ہے تاہم رواں ہفتے میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہدایات وصول ہوئیں جن میں کہا گیا تھا کہ وہ کراچی کے پرائیویٹ آرگنائزرز کو ورلڈ الیون کا نام استعمال کرنے سے منع کریں کیونکہ ورلڈ الیون کا نام استعمال کرنے کا استحقاق صرف آئی سی سی کے پاس ہے اس کی اعلان کردہ ٹیم ہی ورلڈ الیون کہلا سکتی ہے چونکہ جے سوریا کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کرنے والی ٹیم کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آئی سی سی کے اعتراض کے فوری بعد ڈاکٹر محمد علی شاہ نے ٹیم کا نام ورلڈ الیون سے تبدیل کرکے اسے انٹرنیشنل ورلڈ الیون کر دیا۔ انٹرنیشنل ورلڈ الیون اب پاکستان آل سٹار کے ساتھ ہفتہ اور اتوار کو دو ٹی ٹونٹی میچز کے لئے کراچی کے نیشنل کرکٹ سٹیڈیم میدان میں اتریں گی۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ کی کوششوں سے پاکستان میں غیر ملکی کرکٹرز کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے توقع کی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو ان میچز کے انعقاد کا فائدہ ہو گا اور غیر ملکی ٹیموں کی آمد ممکن ہو سکے گی۔ سری لنکا کے سابق کپتان جے سوریا سمیت پاکستان کا دورہ کرنے والے کھلاڑیوں نے پاکستانی قوم پر ایک احسان کیا ہے جس کا بدلہ چکانے کے لئے ہمیں مہمان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ مشکل وقت میں وہ پاکستان کے دورہ پر آئے ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ نے پی سی بی سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اس میچ کے لئے قومی کرکٹرز کو این او سی جاری کریں تاکہ وہ پاکستان آل سٹارز کی نمائندگی کر سکیں جس کی قیادت پہلے سے شاہد خان آفریدی کو سونپی جا چکی تھی۔ انٹرنیشنل ورلڈ الیون میں پاکستان کا دورہ کرنے والے کھلاڑیوں میں سنتھ جے سوریا (کپتان) ریکارڈہ پاول‘ سٹیون ٹیلر‘ جیرمن لاسن‘ ایڈم اسٹیفورڈ (ویسٹ انڈیز) لوٹس بوسمین‘ آندرے نیل‘ آندرے سیمور‘ نیتنی ہورڈ (جنوبی افریقہ) شاہپور زدران اور محمد شہزاد (افغانستان) شامل ہیں۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے جسٹن کیمپ ٹخنے کی انجری کے باعث دورہ سے دستبردار ہو گئے ہیں ان کی جگہ کسی دوسرے متبادل کھلاڑی کا نام سامنے نہیں آیا۔ یہ کھلاڑی جمعرات کو پاکستان پہنچ گئے تھے۔ مہمان کھلاڑیوں کا کراچی کے انٹرنیشنل ائرپورٹ پر گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔ سندھ حکومت کی جانب سے مہمان کھلاڑیوں کی سکیورٹی کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے تھے۔ انٹرنیشنل ورلڈ الیون کے کپتان جے سوریا نے کراچی پہنچنے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری رائے میں پاکستان محفوظ ملک ہے۔ لاہو میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کے نتیجہ میں یہاں انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہو گئی تھی جوکہ بدقسمتی کی بات تھی یہاں کے لوگ کھیل سے محبت کرتے ہیں ان کو انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم نہیں رکھنا چائے۔ ٹیم کے کوچ آلون کالی چرن کا کہنا تھا کہ وہ اس سے قبل بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ 1972ءمیں سیلاب زدگان کی امداد کے لئے فنڈز جمع کرنے پاکستان آیا تھا اس مرتبہ پھر ایک نیک مقصد کے لئے پاکستان آیا ہوں تاکہ پاکستان میں کرکٹ فروغ پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کے لوگوں کو پتہ چل سکے گا کہ پاکستان میں کرکٹ کھیلنے کے حوالے سے کسی قسم کے کوئی حالات خراب نہیں ہیں ریکارڈو پاول کا کہنا تھا کہ دو میچوں کی سیریز کے انعقاد سے پاکستان کے بارے میں پایا جانے والا تاثر ختم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا وقت آگیا ہے۔ جنوبی افریقہ کے آندرے نیل اور ہیورڈ کا کہنا تھا کہ پاکستان کھیلوں کے لئے محفوظ ملک ہے۔ انٹرنیشنل ورلڈ الیون نے یہاں کا دورہ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے۔
پاکستانی شائقین کرکٹ کی خواہش ہے کہ سندھ حکومت خاص طور پر صوبائی وزیر کھیل ڈاکٹر محمد علی شاہ کی جانب سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے جو اقدام اٹھایا گیا ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ پنجاب حکوت بھی اسی جذبہ کے ساتھ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے کوئی اقدام کرے۔ اس سے قبل پنجاب حکومت کی ناقص حکمت کے باعث بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کا موقع ضائع ہو چکا ہے۔ امید ہے کہ سپورٹس اور یوتھ فیسٹیول کے بعد پنجاب حکومت بھی ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے کوئی اقدام اٹھائے گی جس سے پنجاب کے کرکٹ شائقین کو بھی قذافی سٹیڈیم میں بین الاقوامی کرکٹ دیکھنے کو مل سکے گی۔ پنجاب حکومت کو اس بات کا بخوبی اندازا ہو گیا ہے جب اس نے سری لنکا میں منعقد ہونے والے ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے دو میچز کو براہ راست دکھانے کے لئے ہاکی اور فٹبال سٹیڈیم میں بڑی سکرینز کا بندوبست کیا تھا۔ خدا کرے کہ پاکستان میں جلد سے جلد انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو تاکہ دہشت گردی کے واقعات کی بنا پر مرجھائی ہوئی قوم کے چہروں پر خوشی لوٹ آئے۔