نور کی نور بھری باتیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کا ”عدل جہانگیری“
ہمارے ہاں آجکل افراتفری‘ خود غرضی اور مخالفت برائے مخالفت کا جو سیاسی طوفان‘ سونامی بنکر سیاستدانوں کے علاوہ عوام میں بھی اس قدر سرایت کر گیا ہے کہ دوسرے کی خامیوں اور انسانی کمزوریاں نظرانداز نہیں کر سکتے‘ تو کسی کی اچھی بات کی تعریف کرنے اور اسے دل میں اچھا کہنے سے نہ تو شان میں کمی ہوتی ہے اور نہ شخصیت پہ کوئی برا اثر پڑتا ہے۔ بلکہ سنجیدہ متین اور ذہین لوگوں میںاس کا خوشگوار اثر ہوتا ہے۔ خامیاں‘ کجیاں و کوتاہیاں کس بشر میں نہیں ہوتیں لہٰذا ہر انسان کو دوسرے انسان کے مثبت پہلو اور رویے یہ نظر رکھنی چاہئے کچھ عرصہ قبل وزیراعلیٰ پنجاب نے ان طلبا میں انعامات تقسیم کئے‘ جنہوں نے خیبر سے گلگت اور کشمیر میں امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کی۔میرا آج کا حاصل کلام وہ بچہ ہے جس نے ملتان ڈویژن میں میٹرک کے امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے۔ جب وہ سٹیج پہ آیا تو بجائے خوش ہونے کے وہ کچھ بجھا بجھا سا دکھائی دے رہا تھا اور تعارفی کلمات ادا کرتے ہوئے بھی وہ پریشان دکھائی دے رہا تھا اس نے کہا کہ میرا باپ گدھا ریڑھی چلاتا ہے۔ میں انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ لیکن میرے والد نے مجھے تعلیم دلانے میں ہمیشہ میری حوصلہ افزائی اور مدد کی۔ لیکن گذشتہ روز جو شدید بارش اور طوفان آیا تو میرا کچا گھر اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ ہمارے گھر کی کچی دیواریں گر گئیں اور چھت بھی زمین بوس ہو گئی۔ لیکن ہماری دو بکریاں بچ گئیں۔ جب اس بچے نے یہ کہا کہ ہماری دونوں بکریاں بچ گئیں۔ تو سامنے اگلی مہمانوں والی بلکہ معزز لوگوں کی نشست پہ براجمان ایک سفید پوش مہمان نے اسکی بات پہ اس قدر زور سے قہقہہ لگایا کہ ہال گونج اٹھا اور بچے نے خفت محسوس کی۔
بچے کے سٹیج سے اترنے کے بعد میزبان نور الحسن نے اس قدر عمدگی سے اس بوڑھے مہمان کی جو غالباً کسی کالج کے پرنسپل یا کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے کی نازیبا حرکت کے اثر کو زائل کرنے کی بات کی تو سامعین نے سکھ کا سانس لیا۔ نور نے کہا کہ یہ رزق حلال کا کمال ہے جس نے اس بچے کو اتنی جرات و جذبہ عطا کیا کہ وہ بھرے ہال میں سب کے سامنے دلیری سے اور بغیر کسی احساس کمتری کے برملا کہہ رہا ہے کہ میرا باپ گدھا ریڑھی چلاتا ہے اور یہ بات اربوں روپے رزق حرام کمانے والا‘ سمگلر یا اس جیسا کوئی اور شخص اس طرح سٹیج پر کھڑے ہو کر نہیں کہہ سکتا۔ جو رزق حلال سے پلنے والے اس بے خوف بچے نے کی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بچے نے کہا کہ ان کی دو بکریاں تھیں وہ بچ گئیں مگر گھر زمین بوس ہو گیا تو بکریوں کے بچ جانے کی خوشی کا احساس صرف اسی کو ہو سکتا ہے کہ دو بکریاں جس کا کل اثاثہ اور روزی کا ذریعہ ہیں مگر مسلمان اس بات کو کیسے بھول سکتے ہیں کہ بکریاں چرانے والے ایک یتیم بچے نے پوری امت مسلمہ کی رہنمائی و قیادت کی کہ خالق نے کہا کہ میں تجھ سے راضی تو مجھ سے راضی اور اس محبوب کی امت کے فرد کو کہا کہ جنت میں داخل ہو جا‘ بلکہ اللہ کا بھیجا ہوا کوئی نبی ایسا نہیں کہ جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں‘ جب شہباز شریف تقریر کیلئے آئے تو انہوں نے دل کھول کر اور بے ساختہ نور الحسن کے ان الفاظ کی تعریف کی اور کہا کہ یہ الفاظ ہیروں میں تولنے کے قابل ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے جب میں اچھے کاموں کی تعریف کرتا ہوں تو میرے ایک قریبی عزیز کہنے لگے کہ اب تم کالم نگار بن گئے ہو حالانکہ میں نے کئی تنقیدی کالم بھی لکھے ہیں اگر ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کو سپریم کورٹ کہتی ہے کہ تم حکومت کرنے کے قابل نہیں ہو اور ایک صوبے کا وزیراعلیٰ دس ارب روپے مستحق اور اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے طلبا میں حوصلہ افزائی کے لئے بغیر کسی تفریق کے کہ وہ کس صوبے سے تعلق رکھتا ہے تقسیم کرتا ہے اور پھر جب اپنے داماد کو ہتھکڑیاں لگوا کر جیل بھجوا کر عدل جہانگیری کی تقلید کرتا ہے تو ان کاموں کی تعریف نہ کرنا تو کم ظرفی ہے کیونکہ پرچہ کٹوانا ساری عمر کیلئے کسی کے کردار پہ دھبہ لگانا ہے۔ اپنے داماد کو گرفتار کروانے پہ‘ مخالفین اگر منفی رائے زنی کرتے ہیں تو ان کی مرضی مگر اپنے خاندان کے عزیز ترین رشتے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے‘ ہتھکڑی لگوا دینا اور جیل بھجوا دینا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ورنہ تو آجکل مجرم اور ملزم بجائے قانون کا سامنا کرنے کے ایوان صدر اور گورنر ہا¶س بھجوا دئیے جاتے ہیں۔
نور الحسن اپنے روحانی مرشد و استاد کی طرح اپنے علم کو عمل میں ڈھال کر اپنے قول کو فعل کے تابع کر دے تو مجھ جیسے کئی ناسمجھ اس کے ہمیشہ کیلئے تابع ہو جائیں کیونکہ حضور کے عملاً تابع فرمان ہو جانے کی وجہ سے مسلمان عادل ہو کر ہی عدل جہانگیری کی راہ اپناتا ہے اور تعریف کراتا ہے!!!