کرپشن کا خاتمہ ۔۔ ناگزیر!
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جنرل اسلم بیگ، جنرل اسد درانی اور یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ یہ بھی کہا کہ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کے سیاستدانوں میں رقمیں تقسیم کرنے سے فوج کی بدنامی ہوئی۔ یہ کام فوج نے بطور ادارہ نہیں کیا۔ یہ جرنیلوں نے انفرادی طور پر کیا۔ مرحوم صدر غلام اسحق خان کو بھی جنرل درانی اور جنرل اسلم بیگ کی طرح آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے رقمیں وصول کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا او ران سے سود سمیت رقوم کی ریکوری کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس دور کے 6کروڑ روپے آج کے تین ارب 80کروڑ بنتے ہیں۔ یہ شاید تاریخ کا پہلا فیصلہ ہے جس میں رقمیں تقسیم کرنے والے توموجود ہیں۔ رقمیں لینے والوں کی طرف سے اعتراف سامنے نہیں آیا۔جن کے نام سامنے آئے تھے وہ بھی چورپکڑا چور پکڑا کا واویلا کر رہے ہیں۔ فیصلے پر وزیراعظم پرویز اشرف نے کہا کہ پیسے لینے والے معافی مانگیں تاریخ نے 22سال بعد سچ اگل دیا۔ گتھی سلجھ گئی۔ جمہوریت کا قتل کیا گیا اور عوامی مینڈیٹ چرایا گیا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت جنرل بیگ اور جنرل درانی کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ کئی طرف سے ان جرنیلوں کے کورٹ مارشل کی باتیں ہو رہی ہیں۔عوامی مینڈیٹ صرف 90میں ہی نہیں 93ئ،97اور 2002میں بھی چرایا گیا تھا۔ کیا یہ مینڈیٹ چرانے والے بھی جنرل درانی اور جنرل اسلم بیگ کی طرح کے ہی مجرم نہیں ہیں؟ ان کو کیوں معاف کر دیا جائے؟ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کے خلاف جس بھی آئین کے تحت کارروائی کریں ان کا کورٹ مارشل بھی ضرور کریں۔جرنیلوں نے بار بار جمہوریت کا تختہ الٹا تو ان کی اولادوں نے جی بھر کر ملک کو لوٹا۔ سیاستدانوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان میں سیاست سرمائے کا کھیل بن چکی ہے۔ یہ اب لغاری، مزاری، وٹو، مخدوم، چٹھوں، چودھریوں اور نوابوں اور دولتانوں کے گھر کی دولت کے زور پر باندی بن کے رہ گئی ہے۔ لوٹ مار کرنے والے اگر آج ایماندار ہو جائیں تو بھی ان کی سات نسلوں کے لئے جمع پونجی ہر قسم کی عیاشی اور انتخابات جیتنے کے لیے کافی ہے۔ ان لوگوں کی ہر بڑے شہر میں کوٹھی اور وہ ہر کلب کے ممبر ہیں۔ امیر ہونا، بڑی گاڑی رکھنا اور محلات تعمیر کرنا قطعاً جرم نہیں اگریہ جائز کمائی سے ہوں۔ عوام کا خون چوس کر اور ملکی وسائل لوٹ کر جائیدادیں بنانا نہ صرف جرم بلکہ ظلم بھی ہے اس کا نہ صرف خاتمہ ہونا چاہیے بلکہ قوم کی لوٹی گئی پائی پائی اگلوائی جانی چاہئے۔ کرپشن کی جڑ کاٹنے کی ضرورت ہے۔ آج احتساب بل کی بات ہو رہی ہے۔ کوئی کہتا ہے 99کے بعد احتساب کیا جائے کوئی 80کے بعد سے احتساب کی دہائی دیتاہے۔ شہید بھٹوز کی پارٹی کی لیڈرشپ کہتی ہے جس روز احتساب بل پاس ہو اس کے بعد سے احتساب ہو۔ساتھ یہ بھی کہا جاتاہے کہ کرپشن کی حد پانچ کروڑ سے زائد کر دی جائے۔گویا پہلا کھایا پیا ہضم اور پانچ پانچ کروڑ کرکے اربوں مزید بھی سمیٹ لو۔ کرپشن کا دروازہ بند کرکے کئی کھڑکیاں کھول دو۔ میری ایماندارانہ رائے ہے کہ احتساب 47 سے شروع نہ کیا گیا تو ہمارا ملک کبھی مستحکم نہیں ہو سکتا۔ نہ صرف کرپشن اور بدعنوانی سے بنائے گئے اثاثوں کا 1947ءسے احتساب ہونا چاہیے بلکہ آج تک جس نے بھی آئین شکنی کی ،جمہوریت کو داغدار کیا، وطن سے غداری کی سب کو کٹہرے میں لایا جانا چاہئے۔