نظام تعلیم میں درپیش مسائل اور ساندل کالج کا کردار
تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی ۔۔۔ بیوروچیف نوائے وقت فیصل آباد۔۔۔۔۔
وطن عزیز جنوبی ایشیا میں شرح خواندگی میں سب سے پیچھے ہے اور دن بدن گرتے ہوئے تعلیمی معیار نے پاکستان کو عالمی شرح خواندگی کے گراف میں مزید نیچے دھکیل دیا ہے۔عالمی اداروں کی رپورٹس بھی پاکستان میں تعلیمی معاملات کے حوالے سے حوصلہ افزاءنہیں ہیں۔اس وقت تقریباً چار کروڑ بچے سکول جانے کی عمر میں سکول نہیں جا رہے۔ اس کی وجہ تعلیمی سہولیات کا نہ ہونا ہے اور حکومتی غفلت بھی گردانا جاتا ہے۔ دوسری طرف دوہرا نظام تعلیم اوراس میں بھی حکومتی نااہلی اور افسرشاہی کی ملی بھگت اور مافیاز کی اجارہ داری نے نظام تعلیم کے تارپود بکھیر کر رکھ دیئے ہیں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان کی کل آمدنی کا کم از کم 4فیصد تعلیم کے شعبہ پر خرچ کرے پھر کہیں جا کر پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو گا جو شرح خواندگی بڑھانے میں سنجیدہ ہیں اور واقعی اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں دیکھنا چاہتے ہیں اسی سلسلہ میں روزنامہ نوائے وقت فیصل آباد بیورو کے زیراہتمام نظام تعلیم میں درپیش مسائل اور ساندل کالج کا کردار کے موضوع پر ”ایوان وقت“ مجلس مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں پرنسپل ساندل کالج مسز نرگس فاروق، ہیڈمسٹریس گرلز سیکشن مس ثمینہ تسلیم، لیکچرار کنٹرولر امتحانات مس صغریٰ شامی، لیکچرار شعبہ پاکستان سٹڈیز مس سعدیہ جبار، ہیڈماسٹر بوائز سیکشن پروفیسر شوکت علی ڈھلوں، لیکچرار شعبہ انگریزی عبدالر¶ف ہمایوں، لیکچرار شعبہ اردو شاہد اشرف، محمد انیب اطہر، سعد فخری، عروشہ فہیم اور شائستہ احمد نے اظہار خیال کیا۔ایوان وقت مجلس مذاکرہ کا آغاز کرتے ہوئے بیوروچیف روزنامہ نوائے وقت احمد کمال نظامی نے کہا کہ آج پاکستان تعلیم کے شعبہ میں کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے جن کو حل کرنے کے لئے حکومتی کوششیں غیرسنجیدہ اور ناکافی ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر تعلیم کے شعبہ میں نمایاں کردارادا کرتا نظر آ رہا ہے مگر اس کا مقصد صرف اورصرف کمرشل بنیادوں پر منافع حاصل کرنا ہے۔یہ سارے گروپ جو تعلیم کے میدان میں پرائیویٹ سیکٹرکے اندر خدمات سرانجام دے رہے ہیں سب بنیادی طورپر بزنس مین ہیں نہ کہ ماہر تعلیم۔ ان گروپس نے جہاں عام آدمی کے لئے تعلیم کے دروازے بند کر دیئے ہیں وہاں بڑے بڑے ہورڈنگ بورڈز اور اشتہارات کے ذریعے تشہیر کر کے تعلیم برائے فروخت کے عمل کو فروغ دے رہے ہیں۔اس کا حل یہ ہے کہ سرکاری سرپرستی میں اعلیٰ تعلیمی معیار کے حامل اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے اور عام آدمی کے لئے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع پیدا کئے جائیں اور ملک سے دوہرے نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے۔ پرنسپل نرگس فاروق نے کہا کہ ساندل سکول کا آعاز 1991ءمیں ہوا مگر باقاعدہ آغاز 1995ءمیں ہوا۔ ساندل سکول جو اب کالج بن چکا ہے۔ ڈی پی ایس کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ ڈی پی ایس سکول سسٹم ڈویژنل پبلک سکول سسٹم کا آغاز 1959ءمیں ایبٹ آباد سے کیا گیا۔ اسی طرح بلوچستان اور مشرقی پاکستان میں اس طرز کے پبلک سکول بنائے گئے تھے۔ ساندل سکول سسٹم بھی اسی طرز پر استوارکیا گیا ہے۔ ساندل سکول دوسری کلاس سے سٹارٹ کیا گیا تھا۔کالج میں ہاسٹل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جسے مستقل طورپر قائم رکھا گیا تاکہ دوسرے اضلاع اور علاقوں سے بچے اس میں قیام کر سکیں۔ دوسری کلاس میںآئے بچے 1997ءمیں بہت چھوٹے تھے مگر اب بڑی کلاسز کا آعاز کر دیا گیا ہے۔ ہمارے پاس 32کلاس رومز ہیں اور آغاز میں صرف 45طالب علم تھے اور اب تقریباً دو ہزار بچے اس وقت ساندل سکول/کالج میں زیرتعلیم ہیں۔جہاں تک تعلق ڈی پی ایس سکول کا ہے وہ ایک تو شہر کے بالکل اندر واقع ہے اور لوگوں کا رجحان بھی ادھر زیادہ ہے،ڈی پی ایس کا قیام تقریباً 1964-65ءکے دوران ہوا۔ اسی طرح بیکن ہا¶س میں بچوں کو داخل کرانا سٹیٹس کا بھی مسئلہ ہوتا ہے لوگ مہنگے مہنگے سکولوں میں بچوں کو داخل کراتے ہیں ان لوگوں کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے،ان کے پاس پیسہ بھی بہت ہے ان سکولوں کے مقابلہ میں ڈی پی ایس اور ساندل سکولز کی فیسیں بھی کم ہیں۔ ہمارا نصاب آکسفورڈ یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہوتا ہے جسے وزارت تعلیم کی منظوری حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں پانچویں، آٹھویں، نویں اور دسویں کے امتحانات بورڈز میں ہوتے ہیں۔ موجودہ نظام تعلیم کے حوالے سے احمدکمال نظامی نے کہا کہ ملک میں اس دوہرا نظام تعلیم رائج ہے جسے ختم کر کے ہر سطح پر ایک ہی نظام تعلیم رائج کیا جائے تاکہ عام آدمی بھی زیور تعلیم سے مستفید ہو سکے۔ انہوں نے موجودہ نظام تعلیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈنڈے کا استعمال اور رٹا سسٹم اور اوپر سے دوہرا نظام تعلیم پر معاشرے کی بہتری نہیں بلکہ تضادات پیدا کرتے ہیں اس پر مسز نرگس فاروق نے کہا کہ ہمارے ملک میں دوہرا نہیں بلکہ تہرا نظام تعلیم اور پتہ نہیں کئی طرح کا نظام تعلیم ہے سمجھ نہیں آتا۔پرنسپل نرگس فاروق نے کہا کہ تعلیم کے شعبہ سے ہر طرح کی کرپشن ختم ہونی چاہیے اور نظام تعلیم کا مقصد قوم کی تعمیر ہونا چاہیے۔ مسز نرگس فاروق نے مزید کہا کہ اساتذہ کی جدید خطوط پر تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ وہ دوسرے ملکوں کی طرح متعلقہ مضمون کے بنیادی تصورات بارے درست تعریف سمجھا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر بھی تعلیم کے شعبہ میں نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے کیونکہ حکومتی شعبہ بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق وسائل نہیں رکھتا۔مسزنرگس فاروق نے کہا کہ تعلیم کے شعبہ میںاصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ اور امریکہ میں تعلیم کے شعبہ میں جانا آسان نہیں ہے اور وہاں اس کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور معاوضہ سب سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں جس کو نوکری نہیں ملتی وہ آخری آپشن کے طور پر تعلیم کا شعبہ اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ ستم ظریفی ہے اور بجٹ بھی سب سے کم تعلیم کے شعبہ کے لئے رکھا جاتا ہے۔ پاکستان سٹڈیز کی مس سعدیہ جبار نے کہا کہ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں کے لوگ بہت زیادہ ذہین ہیں اگر آپ غور کریں تو یہاں دنیا کے بہترین سائنسدان، انجینئرز، ڈاکٹرز، اساتذہ غرض یہ کہ ہر شعبہ کے لوگ پیدا ہوتے ہیں اورجب یہاں قدر نہیں ہوتی تو وہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی اور تعمیر میں نمایاں خدمات انجام دیتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے ملک کے اندر ٹیلنٹ کو مواقع فراہم کرے اور ان کی جدید خطوط پر تعلیم اور تربیت کا اہتمام کرے۔ دوسری بات یہ کہ اردو نصاب اور انگلش نصاب میں زمین آسمان کا فرق ہے اعدادوشماراکثر غلط یا پرانے ہوتے ہیں میں مطالعہ پاکستان پڑھاتی ہوں مگر آدھا سال گزرنے کے بعد اب ٹیکسٹ بک بورڈ کی طرف سے ہمیں کتابیں میسر آئی ہیں جس کی وجہ سے چھ ماہ ہم بچوں کوکورس نہیں بلکہ وہی بنیادی تصورات پڑھاتے رہے ہیں۔ اب معروضی سوالات کا دورآ گیا ہے بچوں میں لکھنے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ پہلے امتحانی مراکز میں تین تین گھنٹے لکھنا پڑتا تھا مگر اب صرف ٹک مارک کر کے ہی پیپرز حل ہوتے ہیں جو کہ بچوں کی لکھنے پڑھنے کی صلاحیت کم کرنے کے مترادف ہے۔پروفیسر شوکت علی ڈھلوں انچارج بوائز سیکشن نے کہا کہ بچوںکو تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہنی تعمیر کی بھی ضرورت ہے اس کے ساتھ ہی ہم بچوں کو صحت مند سرگرمیوں میں حصہ دلاتے ہیں اور کردار کی تعمیر پر بھی زور دیتے ہیں تاکہ وہ ملک کی تعمیروترقی میں حصہ لیں اچھے شہری بنیں اور جہاں بھی جائیں کارآمد معزز اور احساس ذمہ داری محسوس کرنے والے شہری بن سکیں مگر والدین صرف نمبروںپر زیادہ زور دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں پہلے لارنس کالج گھوڑا گلی میں پڑھاتا تھا ہاسٹل میں قیام کرنے والے بچے زیادہ بہتر طریقے سے تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ بورڈنگ اور گھر کے ماحول میں بہت فرق ہے۔ بورڈنگ میں نظم و ضبط اور ایک سیٹ روٹین ہوتی ہے ٹائم ٹیبل بنا ہوتا ہے اس کے مطابق ہی وہ کام کرتے ہیں۔ شعبہ اردو کے استاد شاہد اشرف نے کہا کہ سیکھنے کے عمل میں استاد کی شخصیت اور ذات بھی شامل ہوتی ہے۔ استاد بچوں کی شخصیت کی تعمیر تراش خراش کرتا ہے اور انہیں ایک جامعہ شخصیت کا مالک بناتا ہے ادارے میں بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں اردگرد کا ماحول اور موافق حالات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ بچے نرسری سے ہی ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اور یہ عمل یونیورسٹی تک اور پھر عملی زندگی میں بھی جاری رہتاہے پھر وہ اس سب کا تجزیہ بھی کرتے ہیں جو کہ شخصیت پر مثبت اثرات ڈالتا ہے۔ قائداعظمؒ نے اپنے سارے اثاثے گورنمنٹ اسلامیہ کالج پشاور کو دے دیئے تھے۔کاش ہمارے آج کے لیڈران بھی ایسی روایت کو زندہ کریں تاکہ تعلیم کی اہمیت اجاگر ہو سکے۔انچارج ہاسٹل عبدالر¶ف ہمایوں نے کہا کہ آج بھارت دنیا میں سب سے زیادہ گریجویٹ پیدا کر رہا ہے اور خاص طو رپر سائنس گریجوایٹس اور آئی ٹی گریجویٹس کیونکہ وہاں پورے ملک کے اندر ایک ہی نظام تعلیم رائج ہے،دوسری بات یہ کہ وہاں انگریزی زبان پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے پہلے انگریزی کی مخالفت کی جاتی تھی مگر اب اگر جدید علوم و فنون میں کوئی کامیابی حاصل کرنی ہے یا علم اور سائنس کے اندر ترقی کرنی ہے تو پھر انگریزی زبان سیکھنی ضروری ہے اور اس کے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں کیونکہ دنیا میں ہر قسم کی تحقیق اور ریسرچ انگریزی میں ہو رہی ہے۔ عبدالر¶ف ہمایوں نے مزید بتایا کہ اس وقت 70لڑکے ہاسٹل میں قیام پذیر ہیں جن کا تعلق دوسرے شہروں سے ہے جو سپورٹس اور تقاریر میں ہمارے بچے بورڈ میں اول پوزیشن پر آ رہے ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ تر بچے ہاسٹل میں دیہی پس منظر کے حامل ہوتے ہیں مگر جب جاتے ہیں تو وہ باقاعدہ ایک ڈسپلن کے اندر ہوتے ہیں۔ ساندل سکول/کالج ایک درس گاہ اور تربیت گاہ بھی ہے جو بچوں کے کردار کی تعمیر کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے۔ شعبہ بیالوجی کی لیکچرار مس صغریٰ شامی نے کہا کہ ہمارے ہاں نصاب جدید ہونا چاہیے جو کہ موجودہ دور کی رفتار کے ساتھ چلنے کے لئے ضروری ہے۔اساتذہ بھی تربیت یافتہ نہیں ہیں ہمارے ملک کا پورا نظام تعلیم مارکس حاصل کرنے کی بنیادپر قائم ہے اس میں تخلیقی عمل کا فقدان ہے۔دوسری طرف پیپرز کی چیکنگ کا نظام ایسا ہے کہ اس پر ایک مافیا کا قبضہ ہے اپنے منظور نظر لوگوں کو پیپر چیکنگ کے لئے دے دیتے ہیں جو کہ ان پیپرز کو توجہ سے نہیں دیکھتے اور بعض دفعہ پورا پورا سوال ہی چیک نہیں کرتے چھوڑ دیتے ہیں اور طالب علموں کے مستقبل کو تباہ کرنے کا باعث ہیں۔انگلش میڈیم پیپرز اردو میڈیم اساتذہ کو دے دیئے جاتے ہیں جو ان کی ابجد کو بھی نہیں جانتے ہوتے۔ ان نااہل لوگوں کے ذریعے چیکنگ کروائی جاتی ہے جس سے بچوں کا میرٹ خراب ہو جاتا ہے اور مستقبل پر اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کہ منفی ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت اور افسران کو کوئی جدید سسٹم متعارف کرانا چاہیے تاکہ ٹیلنٹ ضائع نہ ہو آپ کو معلوم ہو گا کہ غلط چیکنگ کی وجہ سے بعض بچوں نے خودکشیاں بھی کیں مگر جب ری چیکنگ ہوئی تو ان کے نمبر زیادہ تھے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ثمینہ تسلیم ہیڈمسٹریس گرلز سیکشن نے کہا کہ ہمارا نظام تعلیم خرابیوں سے بھرپور ہے جس میں عملی مشقوں کے ذریعے سمجھانے کا رواج نہیں ہے۔ ہمارے ساندل کالج میں زیادہ تر بچے دیہی اور مڈل کلاس پس منظر سے آتے ہیں اور بہتر شہری بن کر جاتے ہیں مگر ہمارے پالیسی بنانے والے انگریزی زبان کی ترویج و ترقی کے لئے خاطر خواہ کوششیں نہیں کرتے جس سے نظام تعلیم نتائج سے عاری ہے اور مکھی پر مکھی مارے جانے کے مترادف ہے۔سکولوں سے رٹا سسٹم ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی ذہنی تعمیر ہو سکے۔ سیکنڈ ایئر کی طالبہ شائستہ احمد نے کہا کہ معروضی سوالات اور سبجیکٹو سوالات دونوں میں چیکنگ کے مسائل ہوتے ہیں اوردوسری بات یہ کہ پریکٹیکل میں صرف سفارش سے نمبرز ملتے ہیں اور بہت کم پریکٹیکل کے ذریعے لیتے ہیں۔عروشہ فہیم نے کہا کہ مارکس کی چیکنگ بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے بورڈز اور دیگر پوزیشنیں تبدیل کی جاتی ہیں۔ سعد فخری نے کہا کہ چیکنگ سسٹم بہت فضول ہے دوبارہ چیکنگ سے نمبر بڑھتے ہیں محکمہ تعلیم اس سسٹم کو تبدیل کرے اور جدید بنائے تاکہ طالب علم بہتر طریقے سے تعلیم سے آراستہ ہو سکیں۔محمد انیب اطہر نے کہا کہ استاد اور شاگرد کے درمیان احترام اور تعاون کا رشتہ ہونا چاہیے چیکنگ سسٹم میں ایک استاد سو فیصد اور دوسرا اسی پرچے کے 60فیصد مارکس دے رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ طالب علم چیکنگ کرنے والوں کے رحم و کرم پر ہیں یہ کوئی جواز نہیں ہے۔ احمد کمال نظامی نے اختتامی کلمات میںکہا کہ بعض یونیورسٹیوں اور کالجزمیں پوزیشنیں اوپر نیچے کرنے کے لئے کسی پوزیشن ہولڈرزکو نیچے لانے کے لئے اس کے ہر پرچے سے دو دو نمبر کم کر دیتے ہیں اور پھر وہ پہلی پوزیشن سے چوتھی پوزیشن پر آ جاتا ہے اور بعض یونیورسٹیوں میں برادری ازم بھی چلتا ہے اور اساتذہ برادری کی بنیادوں پر بھی نمبر دیتے اور کاٹتے ہیں۔ انٹری ٹیسٹ بھی طالب علموں کی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے سب شرکاءاور ساندل کالج کی پرنسپل کا شکریہ اداکیا۔