پاکستان میں ڈرون حملے جاری رکھنے پر اوباما اور رومنی متفق‘ ایبٹ آباد آپریشن کی اجازت لیتے تو اسامہ نکل جاتے: امریکی صدر
فلوریڈا (نوائے وقت نیوز/ایجنسیاں) امریکی صدر بارک اوباما اور انکے حریف مٹ رومنی کے درمیان صدارتی الیکشن سے پہلے آخری مباحثہ ہوا جس میں دونوں نے کئی معاملات پر اختلاف کیا تاہم پاکستان میں ڈرون حملے جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ امریکہ کے صدر اوباما نے کہا کہ اگر ایبٹ آباد آپریشن کیلئے پاکستان سے پیشگی اجازت لیتے تو اسامہ نکل جاتے تاہم انکے مدمقابل صدارتی امیدوار مٹ رومنی نے کہا کہ آپریشن سے قبل پاکستان کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے تھا۔ مٹ رومنی نے کہا کہ پاکستان کے پاس ایک سو ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پاکستان کی امداد روکنا درست نہیں، اگر پاکستان ناکام ریاست بن گیا تو امریکہ کےلئے بہت بڑا خطرہ ہوگا۔ اسے صحیح راستے پر چلنے میں مدد دونگا۔ مستحکم افغانستان کے لئے پاکستان میں جمہویت کا ساتھ دینے کی ضرور ت ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں استحکام کیلئے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ پاکستان خطے اور امریکہ دونوں کیلئے اہمیت رکھتا ہے۔ فلوریڈا میں امریکی صدر بارک اوباما سے تیسرے اور آخری مباحثے کے دوران مٹ رومنی کا کہنا تھا کہ بطور ناکام ریاست پاکستان، افغانستان اور خطے کیلئے خطرناک ثابت ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کا ساتھ دینا چاہئے اور ایسے موقع پر پاکستان کی امداد روکنا ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن شرائط کے ساتھ دینی چاہئے۔ حقانی نیٹ ورک پاکستان میں موجود ہے اور پاکستان کو طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے خطرات لاحق ہیں۔ مٹ رومنی نے کہا کہ ایبٹ آباد آپریشن سے قبل پاکستان کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔ اسامہ بن لادن اور القاعدہ رہنماﺅں کی ہلاکت پر صدر اوباما کو مبارک باد پیش کرتا ہوں لیکن ہم ابھی دہشت گردی کے عفر یت سے جان نہیں چھڑا سکے۔ مٹ رومنی کا کہنا تھاکہ پاکستان کی سلامتی کا تحفظ اور استحکام امریکہ کے مفاد میں ہے، اگر پاکستان ٹوٹا تو یہ افغانستان اور امریکہ کیلئے خطرناک ہوگا۔ پاکستان کے پاس 100سے زا ئد جوہری ہتھیار ہیں، امریکہ پاکستان سے تعلقات ختم نہیں کر سکتا، پاکستان میں سول حکومت کو مضبوط بنانا ہوگا۔ پاکستان کے ناکام ہونے کی صورت میں ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ دنیا سے انتہا پسندی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر بن کر ایران پر پابندیاں مزید سخت کروں گا۔ ایران کو عالمی طور پر تنہا کیا جا ئےگا اور اس کے جوہری پروگرام کےخلاف فوجی ایکشن آخری آپشن ہوگا۔ مسلم دنیاکو انتہا پسندی مسترد کرنے پر آمادہ کروں گا۔ مسلم ممالک میں قانون کی حکمرانی اور اعتدال پسندی کو فروغ دینا ہو گا۔ اس کےلئے ہمیں مسلم ممالک کو معاشی طور پر مضبوط بنانا ہوگا۔ مٹ رومنی کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے ایران آئندہ چار برس میں ایٹم بم بنا لے گا جبکہ مصر میں اخوان المسلمون کے صدر اقتدار پر آچکے ہیں جو پریشان کن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ دوست شام کی ضرورت ہے جبکہ روس اب بھی امریکہ کےلئے جیو پولیٹیکل خطرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ شام میں اس وقت فوجی مداخلت درست نہیں۔ صدر اوباما نے کہا کہ دہشت گردوں کیخلاف پاکستان سے اتحاد کیا ہوا ہے۔ بارک اوباما کا کہنا تھاکہ ایران کا جوہری صلاحیت حاصل کرنا خطے اور امریکہ کیلئے خطرناک ہوگا، جب تک میں صدر ہوں ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکے گا۔ ایران پر حملہ مسئلے کا حل نہیں ہے، ایٹمی پروگرام کا تنازع سفارتی ذرائع سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ فوجی مداخلت سب سے آخری آپشن ہے۔ ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام ختم نہ کیاتو اسے عالمی برادری کی مخالفت کا سامنا ہوگا۔ ایران پر پابندیوں کیلئے روس اور چین کو بھی آمادہ کرنا ہوگا۔ ایران کو اپنا جوہری پروگرام ترک کرنا ہوگا، امید ہے کہ ایرانی قیادت دانشمندانہ فیصلہ کرےگی۔ اوباما کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل امریکہ کا اہم اتحادی ہے، اگر اسرائیل پر حملہ ہوتا ہے تو ہم اس کے ساتھ ہیں۔ دونوں امیدوار اس بات پر متفق نظر آئے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے طاقت کا استعمال آخری حربہ ہوگا۔ صدر اوباما اور مٹ رومنی کے درمیان تیسری بحث سے قبل سیاسی حکمت عملی وضع کرنے والے مبصروں نے دونوں امیدواروں کو یہ صلاح دی تھی کہ وہ پاکستان پر اپنی توجہ مرکوز کریں کیونکہ ان کے مطابق آنے والے دنوں میں پاکستان امریکہ کی خارجہ پالیسی کے لیے انتہائی اہم ہوگا۔ دونوں حریف پاکستان کو امریکی خارجہ پالیسی میں نظر انداز کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ انہوں نے اوباما پر الزام لگایا کہ ایک آدمی کو پکڑنے کے لیے زمین آسمان ایک کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور اسے پکڑنے کے لیے پاکستان سے اجازت لی جانی چاہیے تھی۔صدر اوباما نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس آدمی کو پکڑنے کے لیے درحقیقت زمین اور آسمان ایک کرنے کی ضرورت تھی اور ہم نے ایسا ہی کیا اور اگر ہم نے پاکستان کی اجازت لی ہوتی تو ہم اسامہ کو کبھی نہیں پکڑ سکتے تھے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو اس کے حال پر نہیں چھوڑا جا سکتا وہ بھی ایسے میں جب اس کے پاس سو سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں اور وہاں فوج اور آئی ایس آئی ہی کی چلتی ہے۔ رومنی نے کہا تکنیکی طور پر پاکستان ایک حلیف ملک ہے مگر وہ ایک حلیف ملک کی طرح کام نہیں کر رہا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ہمارا دوست ملک ہے اور اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ ڈرون حملوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر رومنی نے کہا وہ اسے جاری رکھیں گے۔ مباحثے کے ابتدائی حصہ میں اوباما کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا تھا۔ مٹ رومنی نے لیبیا میں امریکی سفارت کاروں کی ہلاکت پر اوباما کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے شدت پسندوں کے بارے میں درست اندازہ نہیں لگایا۔ ریپبلکن امیدوار مٹ رومنی نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو مارنے کی کارروائی پر صدر اوباما کو مبارک باد پیش کی لیکن انہوں نے کہا کہ امریکہ مذہبی انتہا پسندی کے اس گرداب سے اس طرح نہیں نکل سکتا۔ انہوں نے اوباما انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے ان کے اقدامات ناکافی تھے۔ صدر اوباما نے مٹ رومنی پر تنقید کرتے ہوئے کہا خارجہ پالیسی کے معاملات پر ان کے بیان کا کوئی محور نہیں ہے۔ صدر اوباما نے کہا کہ مٹ رومنی دو کھرب ڈالر فوج پر خرچ کرنا چاہتے ہیں جس کا کوئی مطالبہ فوج کی طرف سے نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی صدارت کے دوران ہر سال فوجی بجٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کے فوجی اخراجات دنیا کے دس بڑے ملکوں کے مجموعی اخراجات سے بھی زیادہ ہیں۔ صدر اوباما نے کہا کہ جب تک وہ امریکہ کے صدر ہیں ایرانی جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتے۔ انہوں نے کہا انہوں نے ایران پر شدید ترین پابندیاں عائد کی ہیں جس کی وجہ سے ایران کی معیشت کا برا حال ہے، وہ کہہ چکے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے کوئی بھی طریقہ رد نہیں کیا گیا۔ لیکن ایران کے خلاف قبل از وقت جنگ نہیں شروع کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے روس اور چین کی مدد بھی حاصل کی جائے گی۔ امید ہے ایرانی قیادت بھی ذمہ داری کا احساس کرے گی۔ اوباما نے کہا کہ مٹ رومنی اب بھی روس کو القاعدہ سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ جس پر رومنی نے کہا کہ روس اپنی جیوپولیٹیکل حیثیت کی وجہ سے اب بھی امریکہ کیلئے خطرہ ہے۔ میں ایران کو بھی خطرہ سمجھتا ہوں تاہم اوباما القاعدہ کے حوالے سے میرے موقف کو صحیح طرح نہیں سمجھ سکے۔