کچھ سر چڑھ کر بولتے جادوپر!
لاہورکی وسعتیں سمیٹتی سڑکیں ایک جال کی طرح چاروں طرف پھیلتی چلی جا رہی ہیں!روز کے روز مکمل ہوتے فلائی اوورز اِس شہر کے دوردراز گوشے ایک دوسرے کے نزدیک تر لانے کا سبب بن رہے ہیں! لاہور واقعتا جنوبی ایشیا کا دروازہ رہا ہے! اور ایک بار پھر ایک نئی شان کے ساتھ کھل رہا ہے!
بسترِ علالت سے اُٹھ کر ٹی وی کے سامنے آ بیٹھنا ہمارے لیے بہت دُشوار تھا! مگر، لاہور میں پاکستان کا قومی ترانہ پڑھ کر ’بک آف ورلڈ ریکارڈز‘ میں اپنی کوشش درج کرانے کے خواہاں نوجوانوں اور بچوّں کا جوش و خروش ہمیں تادیر اپنے ساتھ لیے لیے گھومتا رہا! قومی ترانہ پڑھے جانے کی پہلی ریہرسل انتہائی شان دار تھی! اور پھر جنابِ شہباز شریف کی آمد نے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی! جنابِ شہباز شریف نے پنجاب یوتھ فیسٹیول 2012کے آغاز کا اعلان کیا! اور اپنی نشست پر واپس آ بیٹھے!
ہم، اس دوران جنابِ شہباز شریف کے چہرے پر ایک شادمانی کے رنگ کے سوا کوئی اور رنگ جھلکتا نہیں دیکھ رہے تھے! اور ہمیں احساس ہو رہا تھا کہ تمام رشتے تمام تر احترام کے ساتھ قانون کی پاس داری کے لیے گھر سے تھانے کی طرف روانہ کر دینے والا کردار کوئی چھوٹا کردار نہیں ہو سکتا!شکایت کنندہ کی طرف سے نامزد کیے گئے تمام افراد اور اہل کار قانون کی سپردداری میں دے دیئے گئے! ہم نے محسوس کیا کہ اچھے فیصلے سرخاب کے پرَ کی طرح معاشرتی کردارکی شان بڑھاتے چلے جاتے ہیں! اِک طرفہ اطمینانِ قلب کی جھلک دیکھ کر وہ سارا شور و غوغا ہوا میں تحلیل ہوتا لگا! جسے بڑے پیمانے پر عام کیا گیاتھا!
ہماری سوچیں اِدھر اُدھر بھٹک رہی تھیںکہ وہ لمحہ یک دم سامنے آگیا، جس کے انتظار میں ہم ٹی وی کے سامنے آ بیٹھے تھے! 60سے 70ہزار افراد نے مل کر قومی ترانہ پڑھا! مگر، اسی فوٹیج کے دوران ’گنز بک آف ورلڈ ریکارڈ ز‘کی فوٹیج بھی سامنے آئی! اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی آوازوں سے لے کر وہاں موجود ہر اُس فرد کی آواز بھی سنائی دی، جسے قومی ترانہ پڑھنے کا شرف حاصل ہو رہا تھا! لہٰذا جب سرکاری نتائج کے ساتھ صرف ’گنز فوٹیج‘ چلائی گئی ،تو، احساس ہوا کہ اگر صحیح فیصلے پر پہنچنا ہو،تو، اس کے لیے اقدامات کس نہج پر کرنا پڑتے ہیں! اور 60 سے 70ہزار افراد 42ہزار افراد کیسے رہ جاتے ہیں؟ ہمارے ہاں،تو، ’کلوز سرکٹ فوٹیج‘میں صاف صاف ڈاکے ڈالتے مجرم بھی نہیں پہچانے جاتے!
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ورلڈ ریکارڈ کے قائم ہوتے ہی لاہور میں بہت سے نئے ورلڈ ریکارڈز قائم ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا، جو، ابھی تک نہیں تھما! پاکستانیوں نے سب سے بڑا پرچم اور تصویر بنانے کا عالمی ریکارڈ بھی قائم کر دیا! 24ہزار 2سو طلباءنے پرچم اور 1936افراد نے شاہی قلعے کی تصویر بنائی! یہ دونوں کارنامے نیشنل ہاکی سٹیڈیم کے میدان میں سَر کیے گئے!انفرادی سطح پر بھی بہت سے عالمی ریکارڈ قائم کر دیئے گئے! ایک بچی ’مہک‘نے صرف 45سیکنڈ میں شطرنج کی بساط پر مہرے سجا کر ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا!
ان تمام باتوں سے صرف ایک بات واضح ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ہمیں کچھ کر دکھانے کا موقع ملے، تو، ہم بہت کچھ کرکے دکھا سکتے ہیں! ابھی کل کی بات ہے کہ ہم نے جنابِ منظور احمد وٹو کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کی صدارت کا موقع نکالا! اورلاہور ایئر پورٹ پر جنابِ منظور احمد وٹو کے استقبالی جیالوں نے ایئر پورٹ سکیورٹی فورس سے بھڑ کر جیالوں کے دِلوں پر پچھلے ساڑھے چار برس کی پڑی ہوئی خاموشی کے تالے توڑ دیئے! ہمیں ،تو، بس موقع ملنے کی دیرتھی! ہم نے ،تو، اپنی آئی پر آنے میں کوئی دیر نہیں کی!
جنابِ منظور احمد وٹو کا فرمانا ہے کہ جنابِ آصف علی زرداری نے اُنہیں ایک مقصد کے تحت پنجاب بھیجا ہے! اور وہ قاف لیگ کے ساتھ مل کر پاکستان پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کامیاب کرکے دکھا دیں گے!
ایوانِ صدارت سے جاری کیے جانے والے اس مینڈیٹ کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے! ایف آئی اے گزشتہ ساڑھے چار برس کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر کس طرح عمل پیرارہی ہے؟ اس کا ریکارڈ بھی جناب ِرحمن ملک کے پاس موجود ہے! جبکہ جنابِ رحمن ملک پورے زور شور سے ڈنکے کی چوٹ پر فرما رہے ہیں کہ اگر وہ جنابِ نواز شریف کی جگہ ہوتے، تو، وہ قوم سے معافی مانگ کر سیاست سے الگ ہو جاتے! جبکہ جنابِ شہباز شریف کا فرمانا ہے کہ زرداری کی ایف آئی اے کے ہاتھوں تحقیقات منظور نہیں! اصغر خان کیس کے فیصلے کے تحت تحقیقات کے لیے دیانت دار افراد پر مشتمل قومی کمیشن بنایا جائے،تو،پاکستان مسلم لیگ نون ہر طرح معاونت کرے گی!
ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں! مگر، ہمیں آپس میں اُلجھے رہنے کے سوا کسی اور کام کا رہنے ہی نہیں دیا گیا! رہی سہی کسر برقیاتی ذرائع ابلاغ نے نکال دی! مگر، اس بار جنابِ شہباز شریف کے حوالے سے تشدد کی خبر بھی برقیاتی ذرائع ابلاغ نے ہی اُچھالی! اور پھر جنابِ شہباز شریف کے اقدامات اِنہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سراہے بھی گئے! سب کا کہنا تھا کہ اس حد تک جانے کی کوئی اور مثال موجود ہے،تو، اُس کا ذکر کیا جائے! جادو وہی ،جو، سر چڑھ کر بولے!