عدلیہ کی انتخابات میں عدم شرکت کی پالیسی برقرار رہنی چاہئے: آئینی ماہرین
لاہور (وقائع نگار) جوڈیشل پالیسی میں عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کرنے کا مقصد عدلیہ کی آزادی برقرار رکھنا تھا اگر پالیسی تبدیل ہو گئی تو عدلیہ کی آزادی پر ضرب لگے گی۔ ان خیالات کا اظہار سپریم کورٹ بار کے سابق صدر قاضی محمد انور نے نوائے وقت سے گفتگو میں کیا۔ قاضی محمد انور نے کہاکہ جب عدلیہ انتظامیہ سے علیحدہ نہیں تھی تو عدلیہ عام انتخابات یا بلدیاتی انتخابات کراتی تھی اور جب انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی ہوتی تھی تو عدلیہ پر بھی الزامات لگائے جاتے تھے۔ عدلیہ کے انتخابات میں شریک ہونے سے تقریباً 1½دو ماہ تک مقدمات کی سماعت نہیں ہوتی اور لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر قانون ایس ایم ظفر نے کہا کہ عدلیہ نے پہلے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ کسی انتخابات میں اپنے لوگوں کو شامل نہیں کریں گے۔ اب لگتا ہے کہ عدلیہ تبدیلی کرنا چاہتی ہے اس لئے الیکشن کمشن کی درخواست آئندہ کے اجلاس میں رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمن نے کہاکہ جوڈیشل پالیسی قانون میں رکھی، عدلیہ نے ضابطہ وضع کیا، انتخابات میں عدلیہ کی شرکت قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔