لوگوں کا مرنا میچ سکورنگ ہے؟ کیا یہاں چوکے چھکے لگ رہے ہیں‘ کراچی میں ہر شخص بھتہ دے رہا ہے‘ پولیس ناکام‘ بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے: سپریم کورٹ
کرا چی (وقائع نگار + نوائے وقت نیوز + این این آئی)کراچی امن و امان کیس کی سماعت کی سماعت جاری رہی، جب عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ آج مرنے والوں کی تعداد کیا ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ آج کا سکور چھ ہے، اس پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا لوگوں کا مرنا میچ سکورنگ ہے، کیا یہاں چوکے چھکے لگ رہے ہیں ؟ 5 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ بھتے کا معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ علاقے بانٹ لیے گئے ہیں، سیاسی بنیادوں پر نوگو ایریاز موجود ہیں، ایک سیاسی کارکن دوسرے کے علاقے میں نہیں جاسکتا، اس سال زیادہ ہڑتالیں، بھتہ خوری کی وارداتیں اور تاجر نشانہ بنے، کوئی تاجروصنعتکار محفوظ نہیں رہا، شہر میں کوئی ایسا نہیں جو بھتہ نہ دے رہا ہو، جسٹس انور ظہیر جمالی کے ڈی جی رینجرز سے استفسار پر ڈی جی رینجرز نے عدالت میں کہا کہ ہم نے صبح شام کے لئے اضافی نفری تعینات کی ہے، جرائم پیشہ افراد کی موجودگی کی شکایت پر فوری کارروائی کرتے ہیں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ انہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کرتے ہیں رپورٹ درج کراسکتے ہیں نہ چالان پیش کرسکتے ہیں، اس طرح تو یہ چھوٹ جائیں گے، صنعت کاروں کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کیے، کیا آپ پر کوئی دباﺅ یا مشکل ہے؟ ایک موقع پر جسٹس خلجی عارف نے آئی جی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے ہر جگہ نا اہل لوگ بھرتی ہوجاتے ہیں، میرٹ والے گھر بیٹھے رہتے ہیں۔ آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس افسرسیاسی طور پر مضبوط ہوگا تو وہ آپ کے احکام نہیں مانے گا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے استفسارکیا کہ ناکامی کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے، کتنے پولیس افسروں کی سیاسی حمایت سے متعلق تصدیق کی گئی؟ آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے میں تمام افسروں کی سروس بک تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ جسٹس انور ظہیر نے کہا کہ ہزاروں لائسنس یافتہ لوگ مرچکے لیکن ان کے لائسنس استعمال ہورہے ہیں، جاری ہونے والے اسلحہ لائسنس کو رجسٹر کرنے کیلئے اشتہارات شائع کیے جائیں، 6ماہ میں جو لائسنس رجسٹرڈ نہیں ہوا، اسے منسوخ اور جرمانہ عائد کیا جائے، ایم پی اے کو200، ایم این ایزکو 300اسلحہ لائسنس جاری کرنے کا کوٹہ کرپشن ہے، لائسنس بانٹ کر یہ لوگ ووٹ بینک مضبوط کرنا چاہتے ہیں ، یہاں 8سے10 افراد کے قاتلوں کو بھی لائسنس جاری کیے گئے ہیں، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ وسیم احمد نے بتایاکہ وزیر اعلی کا لائسنس کوٹہ لامحدود ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال 1897 افراد ہلاک ہوئے، کیسے کہہ سکتے ہیں کہ امن وامان کی صورت حال بہتر ہے، شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا پولیس کی ڈیوٹی ہے، آپ اس میں ناکام ہوچکے، شہریوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اسلحہ لے کر اپنی حفاظت خود کریں، جسٹس امیرہانی مسلم نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے کہا کہ مانیں کہ آپ خود اتنے کمزور ہیں کہ آپ اسے خود کنٹرول نہیں کرنا چاہتے، آپ کی پولیس صحیح ہو تو معاملات بھی صحیح ہوجائیں۔ چیف سیکریٹری راجہ غلام عباس نے کہا کہ شہر میں دیگر معاملات بہتر ہوئے تاہم امن وامان کا مسئلہ ہے۔ این این آئی کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا کہ پولیس شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے جس کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے بدامنی کیس کے فیصلے پر عملدرآمد ہو جاتا تو امن و امان کی صورتحال یہ نہ ہوتی۔ بھتے کا معاملہ بڑھ گیا ہے اور اب علاقے بانٹ لئے گئے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق دوران سماعت عدالت نے ایس ایچ اوز دیگر پولیس اہلکار وں، افسروںکو واپس ڈیوٹی پرجانے کا حکم دیا۔کیس کی سماعت کے موقع پر تمام تھانوں کے ایس ایچ او سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ عدالت کا کہنا تھاکہ آئی جی سندھ ،پولیس چیف اور چند متعلقہ افسروں کو بلایا تھا باقی واپس جائیں۔ جسٹس انور ظہیر نے کہا کہ اگر علاقوں کے پولیس افسران یہاں بیٹھے ہوں گے تو لوگوں کی حفاظت کون کرے گا۔آپ کا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔ یہاں کسی کی تضحیک کرنے نہیں آئے۔ عدالت نے سپریم کورٹ سے ملحقہ سڑکوں پر کھڑی پولیس موبائلز ہٹانے کا حکم بھی جاری کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے وضاحت کی کہ میری بات کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ 20لاکھ غیرقانونی تارکین کی بات کی تھی۔ عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے لسانی بنیادوں پر کی گئی حلقہ بندیاں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔اِس پر ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کی مطابق نئی حلقہ بندیاں کرنا فی الحال ممکن نہیں ۔ نئی مردم شماری کے بغیر نئی انتخابی حلقہ بندیاں بھی نہیں ہوسکتیں ۔ الیکشن کمیشن کا جواب تھا کہ نیا بلدیاتی نظام آچکا اس پر عمل درآمد میں وقت لگے گا۔ جسٹس انور ظہیر نے ہدایت کی کہ جاری ہونے والے اسلحہ لائسنس کو رجسٹر کرنے کیلئے اشتہارات شائع کئے جائیں۔ 6ماہ میں جو لائسنس رجسٹرڈ نہیں ہوا اسے منسوخ اور جرمانہ کیا جائے۔ ہزاروں لائسنس یافتہ لوگ مرچکے ہیں لائسنس استعمال ہورہے ہیں۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔آپ اس میں ناکام ہوچکے۔ شہریوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اسلحہ لیکر اپنی حفاظت خود کریں۔ ڈی جی رینجرز نے بتایا کہ ہائی پروفائل ملزم کمزور استغاثہ کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں۔ عدالت نے پوچھا کہ کونسے ہائی پروفائل ملزم ایسے ہیں جو چھوٹ گئے ہیں؟ ڈی جی رینجرز نے نے کہا کہ اجمل پہاڑی استغاثہ کی خامیوں کی وجہ سے ضمانت لے چکا ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے بتایا کہ اجمل پہاڑی تمام مقدمات سے ضمانت لے چکا ہے۔17مقدمات میں ملوث تھا۔ جسٹس انور ظہیر نے کہا کہ ساڑھے 4 سال سے سزائے موت کے قید ی ہیں مگر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔اگر کسی وجہ سے سزائے موت نہیں دیناچاہتے تو قانون سازی کریں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ ملزموں کی تصاویر اور ریکوری ہرگز میڈیا پر نہیں آنی چاہئے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ ہر چیز پراسس میں ڈال رکھی ہے کوئی کام ہی نہیں کرتے۔ یہاں وہ قانون بنایا جاتا ہے جو بڑے آدمی کو تحفظ دے رہا ہو۔جسٹس انور نے کہا کہ 3ہزار سے زائد سزائے موت کے قیدی عمل درآمد کے منتظر ہیں۔جسٹس خلجی نے کہا کہ رحم کی اپیلیں ماہانہ بنیادوں پر پیسے دیکر تاخیر کا شکار کی جاتی ہیں۔ جسٹس سرمد نے استفسار کیا کہ اجمل پہاڑی کے کیسز میں گواہوں پر دباﺅ تو نہیں؟دی نیشن کے مطابق جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ کراچی میں پولیس سیاستدانوں کے ایما پر کام کر رہی ہے۔ پولیس اہلکار اپنے ادارے کی بجائے سیاستدانوں سے زیادہ وفادار ہیں۔ جب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے سیاسی دباﺅ سے آزاد نہیں ہوئے کراچی میں امن نہیں ہو گا۔ دوران سماعت بنچ نے حکم دیا کہ حکومت کو لسانی بنیادوں پر قائم گروپ ختم کر دینے چاہئیں اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا شہر میں نئی گروپنگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اے پی اے کے مطابق جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ پولیس شہریوں کے تحفظ میں ناکام رہی صبح اخبار پڑھیں حلق سے چائے نہیں اترتی۔