وقوف عرفات کی جھلکیاں
میدان عرفات (مبشر اقبال لون استادانوالہ سے) سرکاری اور پرائیویٹ دونوں سکیموں کے تحت آنے والے ایک لاکھ 80ہزار پاکستانی حاجیوں نے منیٰ کی خیمہ بستی سے میدان عرفات جانے کے لئے مشاعر ٹرین پر سفر کیا۔ 18 کلو میٹر کا یہ سفر صرف 15 منٹ میں طے ہوا۔ جبل الرحمة کی چوٹی پر حجاج کرام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پہاڑ پر چڑھنے کے لئے لوگ بے چین تھے۔ خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف و دیگر مخیر افراد کی جانب سے جگہ جگہ حجاج کرام میں اشیاءخورد و نوش کے پیکٹ تقسیم کئے گئے۔ ٹریفک پولیس اور حج ٹاسک فورس کے اہلکاروں نے منیٰ عرفات شاہراہ کا کنٹرول سنبھال رکھا تھا، مختلف مقامات پر دعوة والاشارد کی جانب سے حجاج کرام کو دینی مسائل سے باخبر کرنے کے لئے فتویٰ کیمپ لگائے گئے تھے۔ میدان عرفات میں دھوپ کی شدت کم کرنے کے لئے فواروں سے انتہائی آہستہ پانی چھڑکا گیا، مختلف زبانیں بولنے اور جدا تہذیبوں کے امین ایک لباس پہنے لبیک اللھم لبیک کی صدائیں لگاتے رب کائنات کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے رہے۔ پاکستانی حجاج کرام اپنے وطن عزیز پاکستان کو مشکلات سے نجات اور امن و سلامتی کے لئے دعائیں کر رہے تھے۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار کشمیری حجاج کرام ہندو بنیئے سے آزادی کے لئے رو رو کر دعائیں مانگ رہے تھے، پاکستان کی خوشحالی و استحکام اور ترقی کے لئے بھی دعائیں مانگتے رہے۔ پاکستانی کرکٹر شاہد خان آفریدی پر دوران دعا رقت طاری ہوگئی۔ رب العالمین سے اس بات کا وعدہ ہو رہا تھا کہ اے اللہ، اے ہمارے پروردگار! ہم نے زندگی بھر دانستگی یا نادانستگی میں جو گناہ کئے ہیں انہیں معاف کردے، درگزر فرما دے کہ تو غفور الرحیم ہے، یہاں بچے، بوڑھی خواتین و حضرات بلک بلک کر رو رہے تھے۔ سچ مچ ہنگامہ محشر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ حجاج کرام کبھی خوب رو رو کر مانگتے کبھی لبیک اللھم لبیک کا نعرہ لگاتے کبھی تکبیر کی گونج سے زمزمہ آراءہوتے کبھی تہلیل سے نغمہ سرا ہوتے، کبھی لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ سے وحدانیت و ربوبیت کی صدائیں بلند کرتے۔ یہاں اللہ رب العزت کی رحمت کا نزول ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم 71سالہ فضیلتہ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ 32 سال سے میدان عرفات میں واقع مسجد نمرہ میں حج کا خطبہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے 32 واں خطبہ حج دیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ 1981ء1402 ہجری میں حج کا خطبہ دیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ وہ 1940ءمیں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 12سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا اور 22سال کی عمر میں امام الدعوة انسٹی ٹیوٹ سے شریعہ میں گریجوایشن کی۔ انہیں 1995ءمیں سعودی عرب کا نائب مفتی اعظم جبکہ 1994ءمیں مفتی اعظم مقرر کیا گیا۔ مفتی اعظم اپنے خطبے میں مسئلہ فلسطین پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اس کا اثر خطبہ کے دوران ان کے لہجے اور چہرے پر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ سعودی محکمہ شہری دفاع نے حجاج کرام کیلئے 9 زبانوں میں رہنمائی کا مواد فراہم کیا۔ سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ ہیلی کاپٹروں سے فضائی نگرانی کی گئی، عازمین حج کو درپیش مسائل کو حل کرنے اور حادثات سے بچاﺅ کے لئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں، جمعرات پر پہنچنے کے لئے چھ راستوں کا پل بنایا گیا، گزرگاہوں میں صاف ہوا کا بندوبست کیا گیا ہے، معمر حجاج کو لانے اور لیجانے کے لئے خصوصی برقی گاڑیاں چلائی گئی ہیں، حج کرنے والوں کے لئے تیز رفتار ٹرین چلائی گئیں۔