• news

ریلوے اساتذہ کیلئے درد بھری اپیل

پاکستان ریلوے کے مظلوم اساتذہ کی طرف سے مجھے خط ملا ہے۔ اتنی بے بسی‘ کسمپرسی اور محرومی میں مبتلا ٹیچرز خواتین و حضرات نے اس طرح دہائی دی ہے کہ میں دیر تک روتا رہا ہوں۔ جس معاشرے میں استاد کی عزت نہیں ہوتی اور عزت کا تعلق معاشیات سے بہت گہرا ہے۔ وہ قوم کبھی عزت نہیں پا سکتی۔ پسپائی اور رسوائی اس کا مقدر ہوتا ہے۔ آج کل پاکستان میں ظلم و ستم کا بازار گرم ہے مگر پاکستان ریلوے کے اساتذہ کی چیخ و پکار سن کر میرا دل بجھ گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے اداروں میں اتنا ظلم بے انصافی اور بدمعاشی ہوتی ہے۔ بدمعاشی میں معاشی پر غور کریں۔ بدمعاشی ہوتی ہی معاشی ہے۔ استحصال تو ہو رہا ہے پاکستان میں.... لوگ اب عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان ریلوے میں استحصال کیلئے کوئی اور لفظ استعمال کرنا پڑے گا۔
اس حوالے سے غلام احمد بلور تک یہ بات پہنچی ہے کہ نہیں پہنچی۔ ریلوے کا حال تباہ ہوا مگر اس میں ریلوے کی وزارت کے علاوہ پوری حکومت ذمہ دار ہے۔ جب سے بلور صاحب نے گستاخ رسول کے قتل کیلئے انعام کا اعلان کیا ہے۔ اپنی پارٹی اور حکومت کی ناراضگی کی انہوں نے پروا نہیں کی۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ وہ اس کالم میں ریلوے اساتذہ کی طرف سے میری گزارشات پر بھی دردمندی سے توجہ فرمائیں۔ اس حوالے سے سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین سردار ایاز صادق ہیں۔ میں ذاتی طور پر انہیں جانتا ہوں۔ مجھے ان کی شخصیت بے حد پسند ہے۔ وہ تحمل اور تدبر کے پیکر ہیں۔ خاموش طبع اور گہرے جذبات والے آدمی ہیں۔ ان سے میری ذاتی گزارش ہے کہ وہ اس معاملے کی طرف توجہ کریں اور ذاتی طور پر یہ مسئلہ حل کر دکھائیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ بڑی آسانی سے اس بہت سنجیدہ مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ مجھے کچھ اساتذہ نے بتایا کہ وہ ان کے پاس حاضر ہوئے مگر انہوں نے پوری طرح بات نہ سنی۔ میں مظلوم اساتذہ خواتین و حضرات کی بات ان کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں۔ وہ اس طرف دھیان دیں اور فوری طور پر یہ مسئلہ حل کریں۔ میں ان ٹیچرز اور لیڈی ٹیچرز سے نہیں ملا۔ مگر ان کی فریادیں مجھے سونے نہیں دیتیں۔ ان کے ساتھ یہ انتہائی زیادتی ہے۔
ایک طویل عرصے سے یہ خواتین و حضرات پاکستان ریلوے کے ماتحت چلنے والے سکولز اور کالجز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اکثر اساتذہ کو دس سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ مگر ابھی تک اتنا بڑا ادارہ ان کیلئے سروس رولز نہیں بنا سکا۔ 300 سے زائد اساتذہ کیلئے تنخواہوں کے سلسلے میں ٹیچر فنڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ان کی تنخواہیں شرمناک حد تک کم ہیں۔ 7500‘ 8500 اور 9000 روپے اساتذہ کو دیئے جاتے ہیں۔ جیسے خیرات دی جاتی ہے۔ جبکہ یہ خواتین و حضرات بی اے بی ایڈ‘ ایم اے ایم ایڈ اور ایم ایس سی ہیں۔ کالج اساتذہ کی تنخواہ 10000/- روپے ہے۔ چار سال سے تنخواہ میں ایک روپے کا اضافہ نہیں ہوا۔ 89 دنوں کے بعد ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ اس دن بھی کام لیا جاتا ہے۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ اشٹام پیپر پر خودساختہ عبارت لکھ کر زبردستی دستخط لے لئے جاتے ہیں تاکہ وہ عدالت میں نہ جا سکیں۔
جو مستقل اساتذہ ہیں ان کی تنخواہیں 70 ہزار تک ہیں۔ وہ ملازمہ جو بچوں کو سنبھالتی ہے اور مستقل ہے۔ اس کی تنخواہ 16 ہزار ہے۔ انہیں تھوڑی دیر پہلے مستقل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سکولز کی بسوں کے ڈرائیور اور کنڈکٹر 30 ہزار سے زیادہ لیتے ہیں۔ ریلوے ملازمین کیلئے رہائش گاہیں‘ ٹرانسپورٹ‘ میڈیکل الا¶نس اور پنشن کی سہولت بھی میسر ہے۔
جب ارباب اختیار سے مستقل کرنے کی بات کی جاتی ہے تو ان کا جواب بڑا مضحکہ خیز ہوتا ہے۔ ”ریلوے کا عملہ صحیح کام نہیں کرتا۔ غیر مستقل ٹیچرز کی ایجوکیشن بھی بہتر ہے اور وہ کام بھی اچھا کرتے ہیں۔ اسلئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو مستقل نہ کیا جائے۔“ یہ انتہا درجے کی بے انصافی ہے کہ ریلوے کے کچھ لوگوں کو لاکھوں کی تنخواہ اور لاکھوں کی مراعات حاصل ہیں مگر کوالیفائیڈ ٹیچرز کو مستقل ہی نہیں کیا جا رہا۔ ان کی تنخواہیں شرمناک حد تک کم ہیں۔ ٹیچرز جہاں دیہاڑی دار ہوں اس ادارے کا اللہ کی حافظ ہے۔ ٹیچرز اتنے غریب ہیں کہ مل جل کر بھی ان میں وکیل کرنے کی استطاعت نہیں۔ ان کی حالت زار ناگفتہ بہ ہے۔ ان پر جو گزر رہی ہے۔ وہ کسی کو بتانے کے روادار بھی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کو تنخواہ طلبہ و طالبات کی فیسوں سے دی جاتی ہے۔ اسی میں ٹیچر فنڈ سے بچوں کی فیسوں سے لاکھوں روپے جمع ہوتے ہیں۔ وہ کہاں جاتے ہیں۔ وہ ٹیچرز جو اب کہیں اور بھی اپلائی نہیں کر سکتے۔ ان کی قابل رحم حالت پر ترس کھایا جائے۔ اس جان لیوا مہنگائی میں وہ گزارا نہیں کر سکتے۔ پھر بھی گزارا کئے جا رہے ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ انہیں 2008ءسے مستقل کیا جائے اور ان کی تنخواہوں کو کم از کم معقول حد تک تو لایا جائے۔ گورنمنٹ پے سکیل کے مطابق ہی ان کو تنخواہ دی جائے۔
دانش سکولز کے اساتذہ اپنا کیس عدالت تک لے کے گئے۔ تو ان کی تنخواہ 100 فیصد بڑھا دی گئی۔ ریلوے کو کرپٹ لوگوں نے برباد کر دیا مگر ٹیچرز کو جائز معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ نہ ان کو مستقل کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں۔ جو لوگ اپنی زندگی کا اصل زمانہ ریلوے کی سروس کیلئے وقف کر چکے ہیں۔ وہ کم از کم انصاف کے مستحق ہیں۔ سپریم کورٹ کے دردمند اور بہادر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہی کوئی نوٹس لیں۔ وہ اپنے طور پر کچھ مہربانی کریں‘ ان غریب اساتذہ کے پاس عدالت میں جانے کیلئے کچھ بھی نہیں۔ ورنہ تنگ آمد بجنگ آمد والا معاملہ بھی آ سکتا ہے۔ غلام احمد بلور ان بے چاروں کیلئے کچھ کریں۔ برادرم سردار ایاز صادق ہی کچھ مہربانی کریں۔ ان لوگوں اور عورتوں کے حال زار پر رحم کھائیں۔ میں آپ سے رحم کی اپیل کرتا ہوں۔ ایک راز کی بات آپ کو بتا¶ں۔ میں ان لوگوں کی بے بسی بے چارگی کیلئے بہت صدمے میں ہوں۔ جی چاہتا ہے کہ میں آپ کے دروازے پر آ کے بھوک ہڑتال کروں اور اس وقت تک نہ اٹھوں جب تک آپ یہ مسئلہ حل نہیں کر دیتے۔ یہ خواتین و حضرات اساتذہ ہیں اور بہت قابل احترام ہیں۔ خدا کیلئے خدا کیلئے؟

ای پیپر-دی نیشن