امریکی صدارتی انتخابات کے بعد کا پاکستان
6 نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں صدر بارک اوباما دوبارہ منتخب ہو جائیں یا میٹ رومنی صدر منتخب ہو کر آ جائیں پاکستان کیلئے امریکی پالیسیوں میں تسلسل برقرار رہے گا جو کہ سابق امریکی صدر جونیئر جارج بش کے دور حکومت سے شروع ہوا اور اس امریکی گیم میں سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ عوام کی سخت مخالفت کے باوجود (ر) جنرل پرویز مشرف امریکی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے، اس کے بعد آج تک صدر آصف علی زرداری ان پر ہی عمل کرتے ہوئے اپنے اقتدار کے آخری حصے میں داخل ہو چکے ہیں۔ امریکی انتخابات کے بعد پاکستان میں بھی عام انتخابات کا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔ اس سارے عمل کیلئے عبوری مدت میں نگران سیٹ اپ لایا جانا ہے۔ یہ سیٹ اپ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق اس مرتبہ طویل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے کیونکہ امریکہ بدستور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جس آپریشن پر زور دیتا آ رہا ہے اس کیلئے ملالہ یوسف زئی ایشو کو مغربی قوتوں نے اپنے مفادات کیلئے خوب استعمال کیا ہے۔ مغربی میڈیا اس ایشو کو ترجیحی بنیادوں پر کوریج دے رہا ہے اور برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال میں قومی سلامتی کے محافظ رحمن ملک کے ہمراہ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ کا خصوصی طور پر ملالہ کی عیادت کو جانا یہ ثابت کر رہا ہے کہ اس ایشو کو بعض طاقتیں استعمال کر کے پاکستان میں مسائل پیدا کرنا چاہتی ہیں حالانکہ رحمن ملک بیان دے چکے ہیں کہ ملالہ کے قاتل وہ افغان ہیں جو افغانستان سے آئے تھے۔ افغانستان کس کا ہے، امریکہ کا بادشاہ کا پھر بھی ساری کارروائی میں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ امریکی حکومت اس ایشو کو بنیاد بنا کر پاکستان کے علاقے وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں نہ صرف ڈرون حملوں کی کارروائی کو جائز قرار دلوانا چاہتی ہیں بلکہ وہاں فوجی آپریشن کے لئے میدان تیار کروانے کی حکمت عملی پر امریکی سی آئی اے کو فری ہینڈ دلوانے کا بھی سوچا جا رہا ہے حالانکہ افواج پاکستان خود بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں کہ وہ وہاں شدت پسندوں کے اگر کوئی ٹھکانے ہیں تو ان کو مذاکرات پلس آپریشن کے ذریعے ختم کروایا جا سکتا ہے جس کے لئے حتمی فیصلہ خود حکومت پاکستان ہی کو کرنا ہے اور ہر حالت میں زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر کیلئے انتخابات کی مہم کے دوران اس بار امریکہ میں جو عالمی ایشوز زیربحث رہے ان میں پاکستان کو خاص طور پر زیربحث لایا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی قوت بن جانے کو بار بار زیربحث لایا گیا اور امریکی حلقوں میں بے چینی بھی دیکھنے میں آئی۔ انتخابات کی اس مہم کے دوران دونوں صدارتی امیدواروں نے اپنے اپنے انداز میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں امریکی میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر اظہار خیال کیا۔ افغانستان کے بعد اب پاکستان کو بھی عالمی امن کے حوالے سے ایک دھندلی تصویر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دبے لفظوں میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے جبکہ اسرائیل اور بھارت کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں ہمیشہ کی طرح آنکھیں بند رکھی گئی ہیں۔ ان دونوں ممالک کے ایٹمی اثاثوں کے پھیلاﺅ میں امریکی تعاون اور جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، پاکستان کا ایٹم بم کسی طرح بھی امریکہ کو قبول نہیں ہے، بار بار امریکہ کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہیں جبکہ پورا عالم اسلام جانتا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی قوت پورے عالم اسلام کیلئے ڈھال کی مانند ہے لیکن بدقسمتی سے مسلم امہ میں امریکہ نواز حکمرانوں کے مافیا نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی غرض سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو مغرب کے خیالات کے مطابق ”خطرناک منصوبہ“ کہنے کی ہاں میں ہاں ملانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ آج تک کسی ایک بھی مسلم مملکت کے سربراہ نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں امریکی عزائم کی کھل کر مخالفت نہیں کی۔ یہاں تک کہ لیبیا کے کرنل معمر القذافی اپنے تمام ایٹمی اثاثے امریکہ کے حوالے کرتے وقت پاکستان سے حاصل کردہ ایٹمی معلومات بھی امریکی سی آئی اے کے حوالے کر کے محض اس بنا پر کہ لیبیا میں انکی آمریت اور خاندانی اجارہ داری برقرار رہے لیکن انکا جو حشر ہوا اس سے امریکہ نواز حکمرانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ صدر بارک اوباما اقتدار میں رہیں یا میٹ رومنی انکی جگہ صدر منتخب ہو کر آ جائیں پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمیشہ کی طرح امریکی ہٹ لسٹ کا حصہ بنا رہے گا اور آنے والے دنوں میں ایک بار پھر اس ایشو کو اچھالا جائے گا۔ امریکی صحافی ڈگلس فرانزٹ کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دنیا کے انتہائی خطرناک راز فروخت کئے اور اسی طرح ایک اور مغربی صحافی اور مصنف سٹیو کول اپنے لفظوں میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کریمنل کاروبار کہتے ہیں۔ اسی طرح کے کئی اور صحافیوں اور دانشوروں کو آئندہ سال کے آغاز ہی سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف مغربی میڈیا میں پروپیگنڈہ کیلئے ٹاسک دیا جا چکا ہے۔ امریکی ٹی وی نیٹ ورک سی این این اور فوکس ٹی وی پہلے ہی اس ضمن میں کئی پروگرام تشکیل دے چکے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات کے بعد "THE NUCLEAR JIHADIST" کے نام سے عالمی سطح پر سلسلہ وار مہم کا آغاز ہو گا جس میں نشاندہی پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی مکمل ناکامی نہ صرف امریکہ میں بلکہ دیگر مغربی ممالک کے عوامی حلقوں میں بھی ہمیشہ زیربحث رہی اور اب امریکی عزائم جو کہ اس خطے میں اب کھل کر سامنے آ چکے ہیں ان کے مطابق امریکہ اس خطے میں اپنے قدم جمانا چاہتا ہے اور کسی طرح بھی چین کا اثر و رسوخ اس خطے میں امریکہ کو گوارا نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد پھر بھی امریکہ کی موجودگی وہاں برقرار رہے گی اور اب اس سے بھی بڑھ کر پاکستان میں بھی امریکہ اپنی موجودگی کسی نہ کسی بہانے برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اپنا ہمنوا بنا کر یہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کروانا یہ امریکی ایجنڈا ہے۔ یقیناً اس بار پاکستان کی تاریخ میں پاکستان کے عام انتخابات خصوصی اہمیت کے حامل ہونگے۔ پاکستان کے مستقبل پر ان انتخابات کے اثرات بہت گہرے مرتب ہونگے اور آنے والے سال پاکستان کی تاریخ میں انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہونگے۔ شرط یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران امریکہ کے تسلط سے چھٹکارا حاصل کر لیں اور پاکستان کی آزادانہ اور خودمختار ایٹمی حیثیت کو امریکہ سے تسلیم کروائیں!