بینظیر سکیورٹی رسک تھیں نہ پکا قلعہ آپریشن پر انہیں خط لکھا: اسلم بیگ
لاہور (وقت نیوز) سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے وقت نیوز کے پروگرام ”اپنا اپنا گریبان“ میں مطیع اللہ جان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹرز کی بہت اہمیت ہے، آئندہ چند مہینوں میں بہت اہم فیصلے ہونے جا رہے ہیں، سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا کیا 6 کروڑ روپے میں اسمبلی کی 330 سیٹیں حاصل کی جا سکتی ہیں؟ یہ غلام اسحق خان کے ساتھیوں سے پوچھیں کہ انہوں نے 6 کروڑ روپیہ کیوں منگوایا۔ جب جنرل ضیاءالحق اور دوسرے لوگوں کا انتقال ہوا تو اقتدار میرے قدموں میں تھا، میں نے عوامی نمائندوں کو اقتدار سونپ کو احساس نہیں کیا بلکہ فرض ادا کیا، میں نے ایئر چیف، نیول چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بلا کر مشترکہ طور پر اقتدار عوامی نمائندوں کو سونپنے کا فیصلہ دیا۔ نگران حکومت بننے کے بعد الیکشن سیل کے مطالبے پر پیسے آئے۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ پیسے سیاستدانوں میں بانٹے جا رہے ہیں اگر علم ہوتا تو اسے روکتا۔ میں صدر غلام اسحق خان کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے علم ہوا ہے کہ کچھ پیسے آئے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ آئی ایس آئی کے فنڈ میں جائیں گے۔ جنرل درانی نے محترمہ کو اعتراف نامہ بھیجا تھا، وہ پڑھ لیں، وہ حقیقت ہے اس کے بعد ان کے بیان بدلتے رہے۔ وہ کچھ اور تھا اور سپریم کورٹ کو دیا گیا جواب کچھ اور تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ سب کچھ صدر، اس وقت کے وزیراعظم کی ہدایت پر ہوتا رہا اور آرمی چیف کو معلوم تھا۔ حمید گل کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں، حمید گل نے آئی جے آئی بنائی لیکن میں صدر نہیں تھا کہ ان سے پوچھوں۔ آئی ایس آئی آرمی چیف کے ماتحت نہیں تھی۔ آپ مجھ سے اس مقدمے کے حوالے سے سوال کریں۔ آئی ایس آئی کی ذمہ داری تھی کہ وہ چاروں صوبوں میں امن و امان کو دیکھے، ملٹری انٹیلی جنس بونٹ آئی ایس آئی کے کمان میں دی گئی، اس کے اکا¶نٹس آئی ایس آئی نے استعمال کئے۔ جنرل درانی نے کہا تھا کہ مجھے آئی ایس آئی کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے فنڈز چاہئیں، میں نہیں سمجھتا کہ بےنظیر بھٹو قومی سلامتی کے لئے خطرہ تھیں نہ ہی میں نے بےنظیر بھٹو کو پکا قلعہ آپریشن کے بارے میں کسی قسم کا خط لکھا، بےنظیر بھٹو نے پاکستان کی ایٹمی پالیسی وضع کی، انہوں نے کہا کہ بےنظیر نے اس بات کو جھٹلایا کہ انہوں نے 1989ءمیں Nuclear Restraint Policy بنائی؟ اگر انہیں یہ اختیار نہیں تھا تو وہ کیسے بنائیں؟ مجھے معلوم تھا کہ حمید گل آئی جے آئی کے لئے کام کر رہے تھے اگر صدر ایک کام کر رہا تھا تو میں کیوں مداخلت کرتا، کون کہتا ہے ریٹائرڈ جرنیلوں کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ اس وقت 8 جرنیلوں کا ٹرائل ہو رہا ہے، جمہوریت کا تمغہ صرف مجھے نہیں اور کو بھی ملا، مجھے اس تمغے پر فخر ہے، سپریم کورٹ کو کہنے دیں کہ ہم نے الیکشن چوری کی، سپریم کورٹ نے تحقیق نہیں کی بلکہ ذمہ داری حکومت پر ڈال دی، تحقیق ابھی ہوئی نہیں فیصلہ پہلے آ گیا، مجھے اس وقت پیسوں کا پتہ چلا جب اسمبلی میں جنرل (ر) بابر نے اعلان کیا، یہ تاثر غلط ہے کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد بےنظیر سے قریب ہو کر نوازشریف کے خلاف سازش کرتا رہا۔ میری بےنظیر بھٹو، نصیر اللہ بابر سے بلخ شیر مزاری کے گھر ریٹائرمنٹ کے بعد نوازشریف کے حوالے سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی البتہ وہ میرے بچوں کی شادی میں آتی رہیں۔ میرے سیاست میں آنے کے بعد بھی ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جب بےنظیر نے کہا کہ میں نے حمید گل کو تبدیل کرنا ہے تو میں نے کہا آپ کر لیں مجھے اپنی انٹیلی جنس سے پتہ چلا کہ صدر نے اسد درانی کو کچھ پیسے ٹرانسفر کئے، میں صدر کے پاس گیا، ان سے پوچھا، انہوں نے کنفرم کیا کہ میں نے درانی سے کہا ہے کہ اس پیسے کو احتیاط سے استعمال کرنا۔ یونس حبیب کے الزامات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ پہلے ہی سزا یافتہ تھے۔ عدالت سے پوچھیں کہ اس نے یونس حبیب کے بیان پر کیوں اعتبار کیا، یونس حبیب کو جانتا تھا، مجھے یہ نہیں پتہ کہ میرا احتساب کیسے ہو گا، مجھے ابھی وفاقی حکومت نے اس بارے میں بتایا نہیں، الیکشن چوری اگر 6 کروڑ روپے سے ہو جاتا ہے تو سبحان اللہ! میرا ادارہ ”فرینڈز“ کے نام سے 91ءمیں بنا جبکہ مہران بنک 92ءمیں قائم ہوا، پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں میرے ادارے کے لئے مہران بنک کیسے 3 کروڑ روپے دے سکتا تھا۔ بزنس کمیونٹی نے صدر کے کہنے پر پیسہ دیا، یونس حبیب صدر کو جانتے تھے، انہی کے کہنے پر پیسہ دیا، اگر مجھے جانتا ہوتا تو میری یونٹ کو پیسہ دیتا۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اختر کا اپنا خیال ہو گا کہ بےنظیر بھٹو قومی سلامتی کے لئے خطرہ تھیں، میں یہ نہیں سمجھتا کہ وہ قومی سلامتی کے لئے خطرہ تھیں، میں نے نیوکلیئر پالیسی کے بارے میں کئی اجلاس ڈاکٹر قدیر، غلام اسحق خان اور بےنظیر بھٹو کے ساتھ کئے۔ حمید گل نے اگر کہا ہے کہ بےنظیر قومی سلامتی کے لئے خطرہ تھیں تو یہ ان کا خیال ہے، اپنے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کئے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم حکومت کیا کرے گی اس سے پوچھیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ یونس حبیب نے بیان دیا کہ وہ آپ کو بریگیڈیئر کے وقت سے جانتا ہے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ایسے سوالات کیوں کر رہے ہیں مقدمے سے متعلق پوچھیں، میں نے سیاسی جماعت بھی بنائی تھی جب تک میرے پاس وسائل تھے وہ چلی جب ختم ہو گئے تو وہ بھی ختم ہو گئی۔ میں نے Stretegic Defiance نہیں بلکہ Stretegic Depth کا تصور دیا تھا۔ جب 1989ءمیں روس افغانستان سے پسپا ہو رہا تھا۔ اس وقت ایران میں انقلاب آ چکا تھا اور پاکستان میں آمریت ختم ہو کر جمہوریت آ چکی تھی، تب میں نے تین ملکوں کی Stretegic Depth کا نظریہ دیا تھا کہ تینوں ملک پاکستان، ایران اور افغانستان سٹرٹیجک اتحاد قائم کریں۔ یہ نظریہ آج بھی کارآمد ہے، آج پھر ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں، تینوں ملکوں کے اتحاد کا نظریہ آج بھی قابل عمل ہے۔