حکمرانوں نے کبھی نظام دستور کے مطابق نہیں چلنے دیا‘ اب آئین کی پاسداری کرنے والا ملک ہی باگ ڈور سنبھالے گا: چیف جسٹس
شیخوپورہ (نامہ نگار خصوصی + نوائے وقت نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ حکمرانوں نے کبھی ملکی نظام کو آئین کے مطابق نہیں چلایا جمہوریت کو آئین کے مطابق چلنے ہی نہیں دیا گیا۔ اب جو بھی آئین کی پاسداری پر یقین رکھے گا وہ ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھالے گا۔ اب کسی حکمران کو غیر آئینی کاموں کی اجازت نہیں۔ عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔ اس کے بعد کسی حکمران کو غیر آئینی کام کی اجازت نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں لگنے والے کسی بھی مارشل لاءکی مذمت نہیں کی گئی اسی وجہ سے بار بار آمروں کو مارشل لاءلگانے کی جرات ہوئی۔ موجودہ عدلیہ پہلی بار آمر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا 1999ءمیں لگائے گئے مارشل لاءکی بھی مذمت نہیں کی گئی۔ عدلیہ کی آزادی میں 3 نومبر بہت اہم ہے، صاحب اختیار کو علم نہ تھا کہ اتنی مزاحمت ہو گی۔ شیخوپورہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مےرے لئے انتہائی مسرت کا باعث ہے کہ مےں اس تارےخی شہر مےں بار کے معزز ارکان سے خطاب کر رہا ہوں۔ قانون کی حکمرانی، آئےن کی بالا دستی اور عدلےہ کی آزادی کی اس تحرےک نے وکلا مےں اےک نئی روح بےدار کی اور وکلا کو اےک مشترکہ پلےٹ فارم پر اکٹھا کےا، ےہ تحرےک در اصل اصولوں کی جدوجہد تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس حقےقت سے انکار نہےں کےا جا سکتا کہ عدلےہ کو جو عزت آج حاصل ہے وہ دراصل وکلا، سول سوسائٹی کے ارکان، سےاسی جماعتوں کے کارکنوں، پرنٹ اور الےکٹرانک مےڈےا کی باہمی جدوجہد کی وجہ سے ہے اور ےقےنی طور پر ےہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس عزت اور رتبے کا تحفظ کرےں۔ بلاشبہ ےہ عدلےہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال کو قائم رکھنے کے لئے اور جلد انصاف کی فراہمی کے لئے کردار ادا کرے۔ متذکرہ بالا ذمہ داریاں پورا کرتے ہوئے عدالتی ادارے اور سپرےم کورٹ کو شہرےوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے اور آئےن کی بالا دستی کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عدالت عظمیٰ نے ہمےشہ آئےنی دائرہ کار مےں رہتے ہوئے فرائض سر انجام دئےے جن کی بنا پر مجھے رےاست ہائے متحدہ امرےکہ کے چےف جسٹس جناب جسٹس جان جی رابرٹس کے یہ الفاظ ےاد آ رہے ہےں کہ جو ”ثالث قواعد بناتے نہےں وہ قواعد کا اطلاق کرتے ہےں، اےک ثالث اور جج کا کردار پےچےدہ ہوتا ہے اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر کوئی اصول و قواعد پر عمل کرے لےکن ےہ محدود کردار ہے۔ کوئی بھی فےصلے کے پےچھے چھپے ثالث کو نہےں دےکھتا“۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری تارےخ سے ےہ عےاں ہے کہ ماضی مےں حکمرانوں نے سپرےم کورٹ کو حاصل آئےنی اختےارات کو محدود کرنے کی بارہا کوششےں کےں لےکن اللہ کے فضل سے عدالتِ عظمی نے تمام آئےنی ذمہ دارےاں نبھاتے ہوئے ان تمام اقدامات کو غےر قانونی قرار دے دےا عدالت کے اِن فےصلوں کو تمام اہلِ قانون نے سراہا۔ عدلےہ رےاست کا مرکزی ستون ہے اور اسے نہ صرف رےاست کے ڈھانچے کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھانے کے قابل ہونا چاہئے بلکہ اسے رےاست کے باقی ستونوں کو بھی استحکام بخشنا چاہئے مگر سوال ےہ ہے کہ ےہ مضبوطی آئے گی کہاں سے، باہر سے ےا اندرونی طور پر؟ مےرے مطابق عدلےہ کی اندرونی استقامت ہی اُسے امور ِ مملکت مےں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنائے گی اور ےہ اندرونی استقامت اُن اشخاص کے کردار اور پےشہ وارےت کی مضبوطی مےں پوشےدہ ہے جو کہ عدلےہ کی مددگار و معاون ہےں ان افراد سے مےری مُراد بنچ اور بار دونوں ہےں۔ ضلعی عدلےہ عدالتی نظام کی رےڑھ کی ہڈی کی حےثےت رکھتی ہے، ضلعی عدلےہ اپنے فےصلوں سے عوام کو مطمئن کرے گی تو ہی اسے عوام مےں مقبولےت اور عزت حاصل ہو گی۔ انصاف کی فراہمی مےں تاخےر نہ صرف سائلین کے آزار کا باعث بنتی ہے بلکہ سماجی و معاشی سرگرمےوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔ فےصلوں مےں تاخےر کی وجہ سے عوام اپنے مسائل عدالتوں مےں لانے سے گھبراتے ہےں۔ وکلا نے قانون کے پےشہ کو عظےم رتبہ دلایا ہے وہ عوام کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ بار اور بنچ ملک کے عدالتی نظام کے دو اہم جزو ہےں اور اگر اےک جزو اپنی ذمہ دارےاں درست طرےقے سے نہےں نبھائے گا دوسرا جزو از خود سُست ہو جائے گا۔ مےں نے محسوس کےا ہے کہ قومی عدالتی پالےسی کے نفاذ کے بعد ججوں نے التوا مےں پڑے مقدمات کو چےلنج کے طور پر قبول کےا، ان کو نمٹانے کی حتی المقدور کوشش کی اب ےہ بار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پےشہ وارانہ صلاحےتےں استعمال کرتے ہوئے اپنی ذمہ دارےاں نبھائےں۔ ضلعی سطح پر اعلیٰ عدالتی افسروں کی جانب سے بد اعمالی اور بے اےمانی ہمارے ادارے کی اہم اقدار کو گھُن کی طرح کھائے جا رہی ہے ےہ نہ صرف شفاف طرےقے سے انصاف کی فراہمی کی ہماری صلاحےتوں کو کمزور کر رہی ہے بلکہ ےہ ہم سب کی بدنامی کا باعث بھی بن رہی ہے۔ قومی عدالتی پالےسی ساز کمےٹی نے تمام ہائی کورٹس کو ہداےت دی ہے کہ بددےانتی اوربد اعمالی کے خلاف عدم برداشت کی پالےسی اپنائی جائے اور مجھے ےہ جان کر خوشی ہوئی کے تمام ہائی کورٹس نے اےسا نظام وضع کےا ہے جہاں ہرکرپشن اور بدعملی کی شکاےت جو خواہ جج کی جانب سے ہوں ےا سٹاف کی جانب سے، شفاف طرےقے سے درج کرائی جا سکے گی۔ مےں چھوٹی سے چھوٹی بداعمالی کو کسی بھی سطح پر عدالتی نظام مےں برداشت نہےں کروں گا۔ آپ کے علم مےں ضلعی سطح پر ےا پھر اس سے اعلیٰ سطح پر کسی بھی قسم کی بے اےمانی ےا کرپشن آئے تو آپ مجھے مےرے رجسٹرار ےا رجسٹرار ہائی کورٹ کے توسط سے اس بارے میں مطلع کرےں۔ مےں ےقےن دلاتا ہوں کہ ہم نافرمانوں کے خلاف سخت کارروائی کرےں گے۔ اسی طرح سے مےں آپ سب سے امےد کرتا ہوں کہ آپ اپنی ذمہ دارےا ں نبھاتے ہوئے اور اپنے موکل کے سامنے بہترےن اخلاقی طرزِ عمل کا مظاہرہ کرےں، ہمیشہ کوشش کریں گے کہ جھوٹی مقدمے بازی کی حوصلہ شکنی ہو اور آپ ہمیشہ صاف اور کھرے رہیں۔ ہمارا مقصد اےک اےسا عدالتی نظام قائم کرنا ہے جو تمام پاکستانےوں کی ضرورتوں کو پورا کرے، ہماری آزادی کو قائم رکھے، تبدےلےوں کے راستے کھولے، اپنا محاسبہ خود کرے اور سب سے آخری اور بنےادی طور پر ہر خاص و عام کو انصاف باہم پہنچانے کے اپنے وعدے پر قائم رہے ۔ مےں چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ مل کر ہم پاکستانی عدالتی نظام کو مضبوط بنائےں اور شہرےوں کو کم خرچ اور آسان طرےقے سے اپنی خدمات فراہم کرنے کی کوشش کرےں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہئے، پہلی بار عدلیہ نے مارشل لا اور پی سی او کو کالعدم قرار دیا۔ وکلا نے عدلیہ کی آزادی کے لئے قربانیاں دیں، پہلی بار جب مارشل لا لگایا گیا تو کسی نے مزاحمت نہیں کی۔ 1985ءمیں ایسی ترامیم کی گئیں جس کا اندازہ نہیں تھا۔ وکلا نے 3 نومبر کو پاکستان بچانے کا عزم کیا، صاحب اختیار نے آئین سے وفاداری کے بجائے ملک میں بار بار مارشل لا لگائے، بدقسمتی سے 99ءمیں پھر ایمرجنسی لگا دی گئی لیکن کسی نے مزاحمت نہ کی، 3 نومبر کو صرف اور صرف عدلیہ کے خلاف ایمرجنسی لگائی گئی، تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ عدلیہ کو سرنگوں کرنے کے لئے غیر آئینی قدم اٹھایا گیا ہو، وکلا نے ڈٹ کر پیغام دیا کہ وہ مارشل لا نہیں مانیں گے، عدلیہ کو سرنگوں کرنے کے لئے ایمرجنسی لگائی گئی، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سپریم کورٹ کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ کا خواب بھی پورا نہیں ہوا، آئین کے علاوہ جج صاحبان کے لئے نہ کوئی حلف ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں اٹھانا چاہئے۔ 17ویں ترمیم کے دوران بھی کوئی مزاحمت سامنے نہیں آئی، اب عدلیہ اور پارلیمنٹ کسی مارشل لا کی حمایت نہیں کرے گی۔ 18ویں ترمیم میں 3 نومبر اور اس کے بعد کے اقدامات کی توثیق نہیں کی گئی۔ اسلام ہمیں عدل و انصاف کا سبق دیتا ہے، اسلام میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاءبندیال، مسٹر جسٹس مظہر اقبال سندھو، صدر بار رانا سیف اللہ خان، جنرل سیکرٹری طاہر شہزاد کمبوہ، سابق چیف جسٹس زاہد بخاری، سابق صدر بار تقی خان، ملک نصراللہ خان وٹو، چودھری ولایت علی کے علاوہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، ایڈیشنل سیشن جج، سول جج صاحبا اور وکلا کی بہت بری تعداد موجود تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے ملک کی تاریخ سے یہ عیاں ہے کہ ماضی میں حکمرانوں نے سپریم کورٹ کو حاصل آئینی اختیارات کو محدود کرنے کی بار بار کوششیں کی عدلیہ ریاست کا مرکزی ستون ہیں بلکہ اسے ریاست کے باقی ستونوں کو بھی استحکام بخشنا چاہئے۔ قبل ازیں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاءبنڈیال نے ڈسٹرکٹ بار شیخوپورہ کے مطالبہ پر شیخوپورہ میں لیبر کورٹ اور کنزیومر کورٹ کے قیام کا اعلان کیا اور کہا کہ ہر شخص قانون کے سامنے جواب دے ہے، مرنے کے بعد خدا کو بھی جواب دہ ہے انہوں نے شیخوپورہ کی عدلیہ سے کہا کہ وہ دسمبر تک 2008ءکے تمام کیسز کا فیصلہ کریں جسٹس عمر عطاءبنڈیال نے شیخوپورہ کی عدلیہ کیلئے جنریٹر وکلا کیلئے لائبریری کی کتابیں دینے کا اعلان بھی کیا۔
چیف جسٹس