• news

ملنگ وزیراعظم اور کارٹون وزیراعلیٰ

عمران خان نے امریکہ سے آتے ہی کہا کہ ملنگ آدمی ہوں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اگلا وزیراعظم میں خود ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملنگ وزیراعظم ہیں۔ آج ہی بلوچستان کے ”اسلام آبادی“ وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی نے ایسی باتیں کیں کہ میں نے انہیں کارٹون وزیراعلیٰ کا خطاب دے دیا۔ اس کیلئے انہیں دیکھنا بھی ضروری ہے۔ انہیں اس وقت دیکھئے جب وہ کوئی بات کر رہے ہوں۔ اس ملک میں خود بلکہ خودبخود ”وزیراعظموں“ اور ”وزیر اعلا¶ں“ کی کمی نہیں۔ عمران خان وزیراعظم بنیں یا نہ بنیں ہمیں ان کا ملنگ ہونا پسند آیا ہے۔ مگر آپس کی بات ہے کہ وہ وزیراعظم ضرور بنیں گے۔ کیسے اور کب بنیں گے۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ میں ویسے بھی نامعلوم سے عشق رکھتا ہوں۔ امریکیوں نے زیادتی کی کہ انہیں ائرپورٹ پر روک لیا۔ انہوں نے پہلے شیخ رشید کو روک لیا تھا۔ دفاع پاکستان کونسل میں شیخ صاحب واحد غیر مولوی لیڈر تھے اور وہی سب سے زیادہ اہم تھے۔ حتیٰ کہ مولانا طاہر اشرفی سے بھی زیادہ اہم تھے۔ اشرفی صاحب کو پچھلے دنوں اغوا کر لیا گیا تھا۔ اغوا کرنے والے یقیناً امریکی تھے یا امریکہ کے آدمی تھے۔ وہ اشرفی صاحب کو ائرپورٹ تک تو لے گئے پھر انہیں چھوڑ دیا کہ آسانی سے ہوائی جہاز میں اشرفی صاحب کو بٹھانا مشکل تھا۔ سنا ہے امریکی ائرپورٹ پر شیخ صاحب سے پوچھا گیا کہ دفاع پاکستان کونسل نیٹو سپلائی کی بحالی کے کیوں خلاف ہے اور کتنے خلاف ہے۔ شیخ صاحب تو دفاع پاکستان کونسل کی ترجمانی کرنے گئے تھے کہ ہم نیٹو سپلائی کے اتنے ہی خلاف ہیں جتنے پاکستانی حکمران سیاستدان ڈرون حملوں کے خلاف ہیں۔ وہ تسلی رکھیں اور ہماری بھی ”تسلی“ کرائیں۔ اس کے بعد دفاع پاکستان کونسل کے احتجاجی مظاہرے ختم ہو گئے تھے۔ ایک بات سوچنے کی ہے کہ عمران نے ڈرون حملوں کیلئے وہی بات وہاں کی جو وہ یہاں کرتے ہیں۔ انہوں نے بتا دیا کہ وہ یہاں اور وہاں میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ یہ ان کے ملنگ ہونے کی نشانی ہے امریکہ میں اس گستاخی کے بعد سونامی آ گیا جسے امریکی بے عزتی سے بچنے کیلئے سینڈی کہہ رہے ہیں۔ ورنہ یہ ہے سونامی جو امریکہ میں آ گیا ہے۔ اب تو پاکستان کے حاسد سیاستدانوں کو یقین آ جانا چاہئے کہ سونامی پاکستان میں آئے گا۔ مگر اس کیلئے انتخاب کا ہونا ضروری ہے اور انہیں ملتوی کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ انتخابات ملتوی ہوتے ہوتے کہیں منسوخ نہ ہو جائیں۔ صدر زرداری کی طرف سے انتخابات کیلئے تیاری کی ہدایت منظور وٹو کو صدر پنجاب پیپلز پارٹی بنانا اور خاص طور پر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کا چیف الیکشن کمشنر بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ الیکشن ابھی نہیں ہوں گے۔ آج کل میں رحمان ملک نے کہا ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں پاکستان کے اندر حالات اتنے خراب ہونے والے ہیں کہ ڈر لگنے لگا ہے۔ الیکشن خوفزدگی کے ماحول میں نہیں ہوتے۔ رحمان ملک نے سپریم کورٹ میں کہا کہ میری بات نہ سنی تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ تاریخ یقیناً رحمن ملک کو معاف نہیں کرے گی۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں کیا صدر زرداری کو معلوم ہے۔ ملنگ وزیراعظم کارٹون وزیراعلیٰ کے ساتھ ان کا نام ولن وزیر داخلہ ہونا چاہئے۔ اس پر اگلے کالم میں وضاحت کروں گا۔
یہ پاکستان ہے امریکہ تو نہیں کہ سینڈی طوفان کے بعد بھی صدارتی الیکشن ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں سونامی کا خطرہ ہی کافی ہے۔ راز کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں صدارتی الیکشن اپنے وقت پر ہی ہوں گے؟
ملنگ وزیراعظم کے بعد کارٹون وزیراعلیٰ کی باتیں سنیں کہ کوئی میری رکنیت معطل کر کے دکھائے۔ میں اسے دس روپے انعام دوں گا۔ یہ انعام زیادہ ہے اسلم رئیسانی انعام کی رقم کچھ کم کر دیں۔ ورنہ دس روپے کی خطیر رقم کیلئے وہ لوگ بھی کوشش کریں گے جو پیپلز پارٹی میں نہیں ہیں۔ نئے لوگ پیپلز پارٹی میں صدر زرداری کو پسند ہیں۔ مثلاً انہیں اپنی بہن فریال تالپور اور حنا ربانی کھر میں انتخاب کرنا مشکل ہے کہ انہیں کون زیادہ پسند ہے۔ رئیس آدمی تو بہت پاکستان میں ہیں۔ رئیسانی کم کم ہیں۔ وہ بہت ہی رئیس ہوں گے یا کارٹون وزیراعلیٰ بن کر بہت رئیس ہو گئے ہوں گے۔ اسی آرزو میں وہ اسلام آباد میں ایوان صدر کے آس پاس رہتے ہیں۔ وہ اسلام آباد رہتے ہوئے بلوچستان کی حکومت چلاتے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے وہ تو چلتی ہی رہتی ہے۔ ایوان صدر میں قید ہو کے پورے پاکستان کی حکومت صدر زرداری چلا رہے ہیں تو اسلم رئیسانی بلوچستان کی حکومت کیوں نہیں چلا سکتے۔ بلوچستان حکومت بھی صدر زرداری چلا رہے ہیں۔ جس طرح وہ سندھ حکومت بھی چلا رہے ہیں۔ یہ حکومتی ”چل چلا¶“ امریکہ سے چلایا جا رہا ہے۔ اسلئے کسی کو گبھرانے کی ضرورت نہیں۔ صدر زرداری کہتے ہیں کہ پنجاب کا اگلا وزیراعلیٰ بھی کوئی جیالا ہو گا۔ وہ جیالے جو اپنے اندر قائم علی شاہ یا اسلم رئیسانی کی خصوصیات رکھتے ہوں وہ تیار رہیں۔
ایک آدمی نے ایسا کمال دکھایا جسے قائم علی شاہ اور اسلم رئیسانی نے صوبائی حکومتیں چلا کے دکھایا تو ان کیلئے کسی نے خوش ہو کے کہا۔ اوئے تمہاری جیب میں دس روپے ہیں۔ اس نے نفی میں جواب دیا تو افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا۔ بڑا افسوس ہے ورنہ میں تمہیں وہ دس روپے انعام میں دے دیتا کہ میری طرف سے انعام کے طور پر رکھ لو۔ کارٹون وزیراعلیٰ کو اس کے سپیکر نے غصہ دلا دیا کہ اس کے حکم کے باوجود سپیکر نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کر دیا ہے کہ اس طرح کہیں توہین عدالت نہ ہو جائے۔ اسلم رئیسانی بلوچستان کے منفرد وزیراعلیٰ ہیں کہ ان کی کابینہ میں سارے ممبران وزیر شذیر ہیں یعنی اس کے ووٹرز ہیں۔ پورے ساٹھ کے ساٹھ .... اور ٹھاٹھ باٹھ۔ اس کا بس چلتا تو وہ سپیکر کو بھی اپنا وزیر شذیر بنا لیتا۔ پھر اسے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کی جرا¿ت نہ ہوتی۔ اس کا نام بھی اسلم ہے۔ ایک ممبر اسمبلی وزیر نہیں کہ وہ حزب اختلاف ہے اور قائد حزب اختلاف بھی ہے۔ قائد حزب اختلاف کو ایک وزیر کے برابر مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ چنانچہ اسے بھی وزیر شذیر ہی سمجھا جائے۔ یہ بات گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آنی چاہئے۔
یہاں ایک یہ بات بھی سن لیجئے۔ بھاشا ڈیم کیلئے بات چیت کیلئے 16 رکنی وفد بیرون ملک گیا۔ بات چیت کے دوران پاکستانی وفد کے 16 ارکان نے صرف یہ بات کی کہ ہمیں اپنا کمیشن کتنا ملے گا؟ مجھے بیرونی ملک کا نام بھول گیا۔ 16 ارکان میں سے کسی کو بھی اس ملک کا نام یاد نہیں ہو گا۔ کہا گیا کہ ہم تین ہیں۔ آپ لوگ بھی تین ہوتے تو بات چیت کیلئے کافی تھے۔ یہ 16 ارکان کیا لینے آئے ہیں۔ انہوں نے بیک زبان ہو کر کہا اپنا اپنا کمیشن لینے۔

ای پیپر-دی نیشن