کار زارِ سےاست
بے بصر سےاسی معذور مستقبل قرےب مےں سجنے والے سےاسی مےدان کے متوقع نتائج سے ہراساں وخوف زدہ ہےں۔ بے معنی اور حقائق کے منفی بےانات داغ رہے ہےں۔ عہدِ رفتہ کی غےر مصدقہ لغزشوں کو اچھال رہے ہےں۔ رائی کو پہاڑ بنا کر اپنے خوف کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہےں۔ ان کا خوفزدہ ہونا فطری عمل ہے۔ شےر کی آمد سے رن کانپتا ہے اور بھےڑ بکرےوں مےں کھلبلی مچا کرتی ہے اور بس ےہی ہو رہا ہے۔
قمرالزمان کائرہ صاحب بظاہر تو معتبر و معتدل سےاستدان تھے مگر ےار طرحدار کی نوازش وعناےت سے مرعوب ہو کر اعتدال کی روش ترک کردی اور سےاسی رواداری کو بھی بالائے طاق رکھ دےا۔ وزارت اطلاعات کا ”خفےہ خزانہ“ ہاتھ آےا تو سرکاری و نےم سرکاری صحافتی ذرائع کو استعمال کےا۔ تعرےف وتوصےف مےں منہمک ہو گئے۔ عدالتِ عظمیٰ کے مختصر فےصلے پر بےانات کی بارش کر دی۔ قانون اور فےصلے کی غےر قانونی تاوےلےں پےش کیں ان کے چہرے کی مسکان‘ لفظوں کی اوچھان‘ بےانات کی ہےبت اور لفظوں کی ادائےگی حےرت انگےز طور پر ڈاکٹر بابر اعوان گہری مماثلت رکھتی ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کا طرز بےان اپنا لےا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بھی شخص واحد کی خوشی اور خوشامد کےلئے خوش دلی سے لاکھوں موشگافےاں کرتے تھے۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرتے تھے۔ کبھی قانون اور کبھی مذہب کو استعمال کرتے تھے آخر اس جھوٹ کے خطرناک سفر مےں اپنے محبوب کا ہاتھ تھام کر اتنا آگے بڑھ گئے کہ نجات کا کوئی راستہ نہ ملا۔ پےچھے گہری کھائی اور آگے خطرناک چڑھائی۔ سب ےہی وہ مقام تھا جہاں ڈاکٹر بابر پل بھر کو رکے، ٹھٹھکے، ڈرے اور پھر اپنے محبوب قائد کا ہاتھ انداز دلبرانہ سے جھٹک دےا۔ ڈاکٹر بابر اعوان اپنے پےارے صدر کو ترسی نگاہوں سے دےکھتے ہوئے گمنامی کے اندوہناک اندھےرے کی نذر ہو گئے۔ منظر سے اوجھل ہو گئے۔ آج تک لاپتہ ہےں۔ دوست تلاش گمشدہ کا اشتہار جاری کر چکے ہےں۔
آج کل قمرالزمان کائرہ صاحب اپنے محبوب رسوا کا ہاتھ تھامے لذت قربت سے آشنا اور سرشار ہےں اور واضح اعلان کر رہے ہےں کہ وہ جناب بابر اعوان کی مسند پر فائز ہو چکے ہےں بلکہ قبضہ فرما چکے ہےںان کے منہ کا شگاف وہ آگ اور زہر اگل رہا ہے جو بعد مےں باعث ندامت وہزےمت بن جاتا ہے اور بالاخر تارےخ کی تارےک وادی مےں گم ہو جاتا ہے۔
سوال ےہ ہے کہ ہمارے سرکردہ راہنما اور سےاستدان صرف گڑے مردے اکھاڑنے والے گورکن بنے رہےں گے ےا سےاست مےں رواداری کی خوشگوار روائت کا آغاز کرےں گے۔ تلخ وشےرےں ماضی کے آسےب مےں گم رہےں گے ےا حال و مستقبل کو روشن کرنے کےلئے محبت کی شمعےں روشن کرےں گے۔
مےں بنےادی طور پر مثبت روےے اور امےد کا پےروکار ہوں۔ سنجےدہ رواےات کا متلاشی ہوں۔ مگر کائرہ صاحب جےسے بظاہر خواندہ و تجربہ کار سےاستدانوں کی بچگانہ اور احمقانہ باتوں نے مجھے بھی ماےوس کردےا ہے۔ شرجےل مےمن صاحب کی کےا بات کرےں۔ کس کس بات کا ذکر کرےں۔ وہ سےاست اور لغوےات مےں فرق سمجھنے سے قاصر ہےں اور جناب ذوالفقار مرزا سے متاثر ہےں۔
عمران خان نےازی اور ان کے حواری بھی”شرجےلی فقہ“ کے علمبردار اور دعوےدار ہےں۔ وہ جناب اصغر خان کےس کے فےصلہ پر کھل اٹھے ہےں ۔ طرح طرح کے تضادات پر مبنی بےانات جاری ہورہے ہےں۔ فےصلے کا اصل متن پڑھے ےا جانے بغےر فلک شگاف نعرے بلند کےے جارہے ہےں۔
لےکن ان سب کی معاندانہ خوشی بن کھلے مرجھا گئی ہے۔ امےدوں پر اوس پڑ گئی ہے۔ سابقہ آرمی چےف (ر) جنرل اسلم بےگ نے سےدھا سادا بےان دے کر مےاں محمد نواز شرےف کی پوزےشن روز روشن کی طرف واضح کردی ہے۔ اور ان کا کردار شےشے کی مانند چمک رہا ہے۔ بغلےں بجانے والے بغلےں جھانکنے لگے۔سچ آب وتاب سے واضح ہوگےا ہے۔اور سب سے بڑھ کرےہ کہ وہ تمام نعرہ زن اس وقت شدےد صدمے سے دوچار ہوئے جب مےاں محمد نواز شرےف نے عدالتِ عظمیٰ کے حکم کے مطابق اےف آئی اے کی تحقےقات مےں شامل ہونے کا اعلان کردےا۔
جھوٹ کا بلبلہ بجھ گےا۔ الزام تراشی کرنے والے خاموش ہوگئے اور اپنے اپنے کونوں کھدروں مےں چھپ گئے۔
مےرا خےال ہے کہ ان رہنمائی کے دعویدار افراد کو جناب بابر اعوان کے انجام سے ڈرنا چاہئے۔ ماضی سے سبق حاصل کر چاہئے۔ الزام تراشی اور کردار کشی کی مذموم مہم سے اپنے کوتاہ قد کو مزےد کم نہےں کرنا چاہئے۔ نواز شرےف سےاست مےں اقدار کی تروےج کے بانی ہےں ۔ سےاستدانوں کو بلوغت کی منزلےں طے کر لےنی چاہئےں تاکہ اخلاقےات کا ارتقاءہو۔ رواداری کی روائت پےدا ہو۔
عرض کرنا مےرا فرض تھا مگر مےں جانتا ہوں کہ جب دل مردہ ہوں اور آنکھوں پر تعصب اور نفرت کا غلبہ ہو تو زبان اور قدم ہم قدم ہو کر انسان کو گمراہی کی ڈھلوان پر رواں دواں کر دےتے ہےں۔
افسوس اس زوال اورقحط الرجال کا آغاز تو ہو چکا ہے۔ سنجےدہ‘ معتبر اور دانا لوگ دھےرے دھےرے پرانی پارٹی کے نئے اُبال اور جال سے بچ کر نکل رہے ہےں۔ پارٹی سے علےحدگی اختےار کر رہے ہےں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پےنے والے‘ لوٹا کرےسی کے بانی اور سےاست کو بازار بنانے والے اتنی بلند آواز سے نعرہ زن ہےں کہ کوئی ان کے ماضی کے افسوسناک افسانے اور راز عےاں نہ کر دے۔