SUNDER SING & CHANDER SING, ONE AND THE SAME THING
سال رواں کے دوران امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں کیونکہ اس سال برسر اقتدار آنے والی سیاسی پارٹی اور صدر کی پالیسیاں دوسرے ممالک پر براہ راست اثر انداز ہوں گی اور ان پر دو رس اثرات مرتب ہوں گے۔ عالمی سطح پر سروے کے مطابق زیادہ ممالک میں رائے عامہ (ڈیموکریٹک) پارٹی کے امیدوار مسٹر باراک اوبامہ کے حق میں پائی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں عوام ری پبلک امیدوار مسٹر مٹ رومنی کے آئند امریکہ کے صدر بننے کے حق میں ہیں جس کی وجہ شاید ری پبلکن امیدوار کا پاکستان کی حمایت میں دیا گیا بیان ہے جو انہوں نے چند روز پہلے اپنی تقریر کے دوران دیا۔ دوسری طرف بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں کے سبب موجودہ امریکی صدر کے خلاف پاکستانی عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے اور ان کی مقبولیت میں بے انتہا کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس ضمن میں ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ مسٹر مٹ رومنی کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں بش دور کے تقریباً سترہ مشیر خاص دوبارہ حکومت میں ہوں گے جن سے پاکستان کی حمایت کی امید رکھنا عبث ہے کیونکہ اس صورت میں ڈک چینی اور بولٹن جیسے افراد حکومت میں شامل ہوں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسٹر اوبامہ اور رومنے کا صدر بننا پاکستان کے لئے سود مند ہو گا؟ گو مسٹررومنے نے صدر اوبامہ کو پاکستان سے کشیدگی پیدا کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے مگر ان کی پاکستان کے سلسلے میں پالیسی واضح طور پر سامنے نہیں آئی اس سلسلے میں کابل میں مقیم ایک امریکی صحافی نے اپنے بیان میں کہا کہ مسٹر رومنی کے پاکستان کے بارے میں پالیسیاں بہت مبہم اور غیر واضح ہیں کیونکہ ان کے بیانات میں کافی تضاد اور اختلاف پایا جاتا ہے۔
قطع نظر اس کے امریکہ کا نیا صدر کون منتخب ہو گا پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی کا انحصار چند اہم امور کے گرد گردش کرے گا۔ اوّل: دہشت گردی دوم: پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سوئم: افغانستان سے امریکی افواج کا انخلائ۔ دراصل پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کا انحصار ہماری ملکی اور بیرون ملک دہشت گردی کے سلسلے میں ہماری کارکردگی پر ہو گا اس سلسلے میں قوی امکان ہے اگر رومنے امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے تو ان کی پاکستان کے حوالے سے پالیسیاں زیادہ سخت اور ہمارے ملکی مفادات سے متصادم ہوں گی۔ مزید براں امریکی محکمہ دفاع اور سی آئی اے میں پاکستان کی مخالفت لابی چاہتی ہے کہ ہماری امداد اور حمایت کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ اس ضمن میں ایک امریکی سفارت کار نے ایک بیان دیا کہ مسٹر اوبامہ مسٹر رومنے میں کوئی بھی پاکستان سے تعلقات مکمل طور پر منقطع کرنانہیں چاہے گا مگر ان دونوں میں سے کوئی بھی پاکستان پر اعتماد نہیں کرتا۔ خاص طور پر امریکی فوجی قیادت پاکستان کی افغانستان میں کارروائیوں سے بہت زیادہ نالاں ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کو پیش آنے والی مشکلات کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے جہاں تک 2013-14ءکے دوران افغانستان میں پاکستانی حکمت عملی کا تعلق ہے اسے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے یہ ہماری قیادت کا سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کا کڑا امتحان ہو گا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان واشگاف الفاظ میں اپنی افغان پالیسی کا اعلان کرے اور پھر اس پر سختی سے کاربند رہے۔ بصورت دیگر ہمارے بارے میں بین الاقوامی سطح پر بداعتمادی میںمزید اضافہ ہو گا اور امریکہ کے افغانستان سے انخلاءکے بعد وہاں پر بھارتی عمل دخل میں بہت زیادہ اضافے کا خطرہ ہے جس کے پاکستان پر بہت زیادہ منفی اثرات اور دو رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ امریکہ سے تعلقات کو صرف مالی امداد کے حوالے سے نہ پرکھا جائے کیونکہ اس سلسلے میں کوئی قابل ذکر پیش رفت اضافے کے امکانات نظر نہیں آتے جس کی بڑی وجہ اس ضمن میں امریکی عوام کی بڑھتی ہوئی مخالفت ہے۔ مزید برآں اس سلسلے میں ہمیں افغانستان میں اپنے روابط کو صرف طالبان تک محدود رکھنے کی بجائے دو طرفہ تعلقات جس میں تجارت، توانائی اور اس ملک کی تعمیر شامل ہے، سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔
قارئین! اس سال امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں عوامی سطح پر یہ تاثر عام ہے کہ ری پبلکن امیدوار اور مسٹر رومنے کے منتخب ہونے کی صورت میں پاک امریکہ تعلقات میں بہتری آ جائے گی لیکن یہ خیال حقیقت پر مبنی نہیں کیونکہ قطع نظر اس کے کون آئندہ امریکہ کا صدر منتخب ہوتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسیاں اس ملک کے اپنے قومی مفادات کے تابع ہیں گی نیز مسٹر رومنے کی پاکستان کے بارے میں پالیسی ابھی تک واضح نہیں اور اس سلسلے میں کسی بڑی تبدیلی کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ مسٹر اوباما اور رومنے کے حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ:
SUNDER SING & CHANDER SING, ONE AND THE SAME THING