• news

رزق حلال والی دلیل سننے کا اب موسم نہیں رہا!

علم کی پہلی خبر ارسطو لایا تھا۔ ”میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔“ زندگی چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہی تھی۔ پہئے کی ایجاد سے انسانی زندگی میں لفظ ’ترقی‘ وارد ہوا۔ زندگی اب بھی سرپٹ نہیں بھاگ رہی تھی‘ قدرے تیز ضرور ہو گئی۔ احرام مصر تعمیر کرتے ہوئے انسان کے پاس پہئے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ مائیں بچوں کو جنتی ہیں۔ ادھر ہمارے حکیم مشرق سرگرداں و پریشاں کہ مختصر سی زندگی یک دو نفس کیلئے نیچر عورت کو اتنی تکلیف کیوں دیتی ہے۔ کبھی کبھی تو صرف درد زہ ہی جنم لیتی ہے۔ زندگی وجود میں نہیں آتی۔ انسانی فکر اور سوچ ساری گتھیاں کہاں سلجھا سکتی ہے۔ آخرکار انسان تھک ہار جاتا ہے اور انسانی فکر سستانے لگتی ہے۔ کچھ دکھائی اور سجھائی نہیں دیتا۔
مدت سے ہے آوارہ افلاک میرا فکر
کر دے اسے اب چاند کی غاروں میں نظربند
آج پل بھر میں دنیا جہان کی خبریں پہنچ جاتی ہیں لیکن پل بھر کیلئے یہ بھی سوچئے کہ کیا انسان باب علم سے باہر کھڑا یہی نہیں سوچ رہا کہ ’میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا‘۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا ’جب جنسی خواہش کے مقابلے میں احساس جمال بہت زیادہ بڑھ جائے اور بہت گہرا ہو جائے تب جنسیت عشق کا مرتبہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس ہندو کو چھوڑیں‘ آئیں علامہ اقبال کے حضور چلتے ہیں اور عشق کی بابت کچھ سوال کرتے ہیں۔
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
اگر ہو عشق‘ تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
تازہ مِرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب
ایک سوال ہے کہ کیا روحانیت عشق کے زینے پر پہلا قدم ہے؟ بھئی! ہم کچھ نہیں جانتے۔ بس کہہ جو دیا کہ کچھ نہیں جانتے۔ امرتا پریتم کی زبانی اس کی قلبی واردات سن لیں۔ ’سمجھ سکو تو ٹھکانے کی بات کرتا ہوں‘۔ امرتا پریتم نے عجیب و غریب بات کی ہے۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی کتاب ”تاریخ تصوف“ کی کانٹ چھانٹ کر کے اب اس میں سے سب کچھ نکال دیا گیا ہے۔ پرانے ایڈیشن میں ہندو تصوف‘ یہودی تصوف‘ زرتشت تصوف‘ عیسائی تصوف‘ بدھ تصوف اور بھی بہت کچھ موجود تھا۔ اب اس کتاب کے نئے ایڈیشن میں نہ ہی تاریخ ہے اور نہ ہی تصوف۔ صرف پروفیسر یوسف سلیم چشتی کا نام نامی ہی باقی رہ گیا ہے۔ خیر ذکر امرتا پریتم کا چھڑا ہوا تھا۔ وہ پوچھ رہی ہے کہ کیا یہ بھی روحانیت کا اک پہلو تو نہیں کہ جسمانی تعلق کے بغیر ہی اس کے ایک بچے کی شکل اس کے محبوب ساحر لدھیانوی سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہے۔ اتنی کہ اس کا بیٹا پوچھتا ہے کہ ’میں ساحر لدھیانوی کا بیٹا تو نہیں!۔ ماں جواب دیتی ہے کہ ’بیٹا نہیں۔ اگر ہوتے تو میں تمہیں ضرور بتاتی‘۔ پھر ایک اور بات بھی تو ہے کہ بہتوں کے نزدیک ساحر لدھیانوی کی مردانگی بھی مشکوک تھی۔ تو کیا ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ارسطو نے اپنے علمی سفر کا انجام کیا تھا:
”میں صرف اتنا جانتاہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔“ اساتذہ میں سے کسی کا شعر ہے:
سینے میں دل ہے، دل میں داغ، داغ میں سوز و سازِ عشق
پردہ بہ پردہ ہے نہاں پردہ نشیں کا راز عشق
وہ پردہ داری کا زمانہ تھا، یہ دیدار عام کا دور ہے۔ آج کی کہانی شہزاد احمد خوب لکھ گئے ہیں:
آنکھیں ہیں یا کہ شہر کی آوارہ لڑکیاں
جو مل چکے ہیں ان کو بھی پہچانتی نہیں
بات کدھر سے کدھر پھسلتی جا رہی ہے۔ ٹرو کے روز درد دل کے ہاتھوں لاچار ہو کر گوجرانوالہ میں صادق صدیق میموریل ہسپتال میں داخل ہوگیا۔ درد تھا کہ کچھ اوربڑھ گیا پھر اتنا بڑھا کہ اس رات دل وحشی نے سب کچھ بھلا دیا، صرف درد دل تھا اور میں تھا۔ شریانوں میں بھاگتے دوڑتے دوائی کے قطرے درد کے مقام تک پہنچے تو کچھ درماں کا سامان ہوا پھر نیند آور دواﺅں کے زیراثر نیند آگئی۔ صبح ساڑھے 8 بجے کا عمل تھا۔ مضطرب موبائل فون کی گدگدی نے جگا دیا۔ مجھے یاد آگیا کہ مغل شہزادوں کو بھی کنیزیں پاﺅں پر آہستگی سے گدگدی کرکے ہی جگایا کرتی تھیں، وہ نہ جاگے اور تخت طاﺅس گنوا بیٹھے۔ میرے پاس گنوانے کو کچھ نہ تھا، سو میں اٹھ بیٹھا۔ فون پر میرا بیٹا وقاص تھا۔ یہ برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی میں بار ایٹ لاءکا طالب علم ہے۔ ڈیڑھ برس سے برطانیہ میں مقیم اس نے مجھے کبھی اس وقت فون نہیں کیا۔ وہ میری خیریت دریافت کررہا تھا۔ میں جھٹ سے بوالا اللہ کا شکر ہے، خیریت سے ہوں۔،میں اسے نہ بتا سکا کہ میں رات سے ہسپتال میں پڑا ہوں۔ کیاہم سب کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ بیشک ہماری بینائی کی اک حد ہے اور اسی طرح فہم و شعور اور ادراک کی بھی۔ میں نے پوچھا اس وقت فون کیوں کر رہے ہو، اس سے پہلے تو کبھی اس وقت فون نہیں کیا۔ وہ بھی ادھر ادھر کی ہانکنے لگا۔ سچ وہ بھی نہیں بول رہا تھا، جیسے میں نے بھی اسے سب اچھاہی کی خبر دی تھی۔ میر ی نسل کے لوگ اپنی عمر گزار چکے ہیں، ہم نئی نسل کو کیا دے کر جا رہے ہیں۔
1945-46ءکے انتخابات کے لئے مسلم لیگ کا منشور دانیال لطیفی نے مرتب کیا تھا۔ اس میں کلیدی صنعتوں اور بنکوں کو قومی ملکیت میں لینے، زرعی اراضی کی حد مقرر کرنے اور بڑے بڑے زمینداروں پر ٹیکس عائد کرنے کا وعدہ تھا۔ اب زرعی اراضی کی حد مقرر کرنے کا ذکر کوئی مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی نہیں کررہی۔ نوجوانوں کی آس امید عمران خان کی جماعت میں بھی حد ملکیت مقرر کرنے کی بجائے صرف کسانوں کی فلاح و بہبود کا راگ چھیڑا جا رہا ہے۔ میاں شہبازشریف خونی انقلاب کی خبر لا رہے ہیں، ان کے دل میں آخر کچھ تو ہو گا جو انہیں انقلابی حبیب جالب بہت مرغوب ہے۔ لاہور جی او آر ون میں اپنی زندگی کے آخری دن گزارنے والے پاکیزہ، باوقار بوڑھے سابق صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ قوم کو خبردار کر چکے ہیں کہ عنقریب زمین کی غیر محدود ملکیت رکھنے والوں اور بے گھر لوگوں کے درمیان خونی جنگ چھڑنے والی ہے۔
تحریک انصاف کے ”کارمختار“ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور شفقت محمود اس مسئلے پر بھلا کیا کر سکتے ہیں۔ یہ بیچارے تو اپنی کلاس کی بقاءکی آخری جنگ لڑ رہے ہیں۔ بڑے مکانوں اور بڑی گاڑیوں کے حق میں برادرم حفیظ اللہ خان نیازی کی رزق حلال والی دلیل سننے کا موسم اب نہیں رہا۔ ہم ایرانی صدر احمدی نژاد کے 7 مرلہ کے مکان پر حیران پریشان تھے کہ یوراگوئے کے درویش صدر کے کچے مکان کا ذکر چھڑ گیاہے پھر کچا مکان کتنے مرلوں کا ہوتاہے حضور؟

ای پیپر-دی نیشن