• news

منظور وٹو کی پنجابی سیاست کے ففٹی ففٹی

منظور وٹو نے صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں ان لمحوں کو یاد کیا جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے اور یہ وزارت انہوں نے نوازشریف سے چھینی تھی۔ جس کا رنج ابھی تک نوازشریف کو ہے۔ گورنر راج کے دنوں میں منظور وٹو کچھ نہ کر سکے تھے۔ سلمان تاثیر کی ملاقات چودھری پرویز الٰہی سے بھی ہوئی تھی۔ اب تک منظور وٹو کی ملاقات چودھری پرویز الٰہی سے نہیں ہوئی۔ گورنر ہا¶س پنجاب میں ملاقات طے تھی مگر چودھری پرویز الٰہی نے اپنے سیاسی جانشین بیٹے مونس الٰہی کامل علی آغا اور راجہ بشارت کو بھیج دیا۔ سنا ہے چودھری پرویز الٰہی لاہور میں مقیم ہیں۔ یوں بھی صدر زرداری نے انہیں پنجاب کیلئے پاکستان کا نائب وزیراعظم بنایا ہے۔ مگر صدر تو منظور وٹو کو بنایا ہے۔ ایک ق لیگیا کہہ رہا تھا کہ منظور وٹو کو نائب صدر بنایا ہوتا تو بھی شاید ق لیگ کو قابل قبول ہوتا۔ وٹو صاحب کا پنجابی سیاست میں انداز ایسا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پنجاب پیپلز پارٹی کے صدر سے زیادہ پنجاب کا صدر سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں اب صوبوں کے گورنر کی بجائے صوبوں میں صدر کا عہدہ ہونا چاہئے۔ یہ جیالا پنجاب کا صدر ہو اور پنجاب پیپلز پارٹی کا بھی صدر ہو۔ اس طرح دو عہدوں کا جھگڑا بھی نہیں رہے گا۔
منظور وٹو نے اپنی وزارت اعلیٰ کے زمانے کو یاد کیا۔ وہ زمانہ انہیں بھولتا ہی نہیں۔ اسی لئے تو منیر احمد خان کو پھر اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ یہ تو انہوں نے اچھا کیا ہے۔ اپنی ابتدائی گفتگو میں منیر احمد خان نے اپنے ساتھ زکریا بٹ کا نام بھی لیا۔ لاہور کی جیالی سیاست میں زکریا بٹ کی بہت خدمات ہیں۔ منیر احمد خان بھی پیچھے نہیں۔ وٹو صاحب نے لمبی مگر مزیدار گفتگو کی۔ جو کچھ انہوں نے شہبازشریف کیلئے کہا۔ یہ باتیں تو وہ ہر جگہ کرتے ہیں مگر آغاز میں کہا کہ میں نے نوازشریف کی مسلم لیگ کے 18 ممبران کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ جیسے آج کل شہباز شریف نے چودھری پرویز الٰہی کی مسلم لیگ کے چالیس پچاس ممبران کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ میں نے یونیفکیشن بلاک نہیں بنایا تھا۔ یہ مسلم لیگ تھی جسے مسلم لیگ جونیجو یعنی ج کا نام دیا گیا جو آج کل مسلم لیگ ہمخیال گروپ ہے۔
خیال آتا ہے کہ حروف تہجی ختم ہونے کے بعد مسلم لیگ کا نام کیا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے تب پنجاب اسمبلی میں 108 ممبر تھے۔ آج کل چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ بھی تقریباً 18 ممبران ہیں۔ شہباز شریف کی صدارت میں ق لیگ کے یونیفکیشن بلاک میں ممبران کی تعداد 45 ہے۔ اب ق لیگ کے 18 ممبران وٹو صاحب کے ساتھ ہو جائیں تو وہ پھر بھی صدر زرداری کا کوئی جیالا وزیراعلیٰ نہیں بنا سکتے۔ الیکشن کے بعد صورتحال کا علم صدر زرداری کو ہے یا کچھ کچھ منظور وٹو کو ہے۔ وٹو صاحب صدر زرداری کے شاگرد تو ہو چکے ہیں مگر کوئی اور دعویٰ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے نوازشریف کے مقابلے میں تین سال حکومت کی۔ چودھری پرویز الٰہی نے پانچ سال پورے کئے۔ اس کیلئے بھی نوازشریف سخت ناراض ہیں۔ صدر زرداری تو پانچ سال پورے کر رہے ہیں۔ اس میں چھٹا سال بھی ڈال لیں اور اس کے بعد پھر پانچ سال؟ یہ گیارہ سال بنتے ہیں مگر گورنر سندھ عشرت العباد تو اس سے بھی آگے جائیں گے مگر وہ بارہ سال بھی پورے کر لیں تو کہلائیں گے صدر زرداری کے گورنر اس سے پہلے صدر جنرل مشرف کے گورنر سندھ۔ دونوں سے بڑھ کر وہ الطاف حسین بلکہ الطاف بھائی کے گورنر سندھ ہیں بلکہ گورنر کراچی ہیں۔
بات تو میں نے منظور وٹو کی پنجابی سیاست کے ففٹی ففٹی کی کرنا تھی۔ منظور وٹو نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے اسے 108 ممبران کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب بنایا۔ جب پنجاب کابینہ بنانے کی باری آئی تو بی بی شہید نے کہا کہ اسمبلی میں ممبران کی تعداد کے حوالے سے وزیر بنائے جائیں تو وٹو صاحب کو مشکل پڑی۔ انہوں نے تحفظات کا اظہار کیا تو بی بی نے پوچھا کہ پھر کیا فارمولہ ہو۔ منظور وٹو نے کہا ففٹی ففٹی۔ 18 اور 108 کا ففٹی ففٹی کیا ہوتا ہے؟ یہ صرف منظور وٹو کو پتہ تھا۔ بی بی نے سیاسی حوصلے کا ثبوت دیا۔ اب صدر زرداری منظور وٹو سے وہی کام لینا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بی بی شہید صدر زرداری سے بڑی لیڈر تھیں۔ میں کہتا ہوں کہ سیاستدان صدر زرداری بہرحال بی بی سے بہت بڑے ہیں۔ بینظیر بھٹو کو دونوں بار ملا کے بھی پانچ سال نکالنے نہ دیئے گئے۔ صدر زرداری نے پانچ سال بڑے دھڑلے سے نکال لئے۔ پانچ سال اگلے بھی وہ شاید لے جائیں۔ ایک سال درمیان والا بھی ساتھ ملا لیں۔
ففٹی ففٹی سے مجھے یاد آیا کہ ایک کباب بیچنے والے نے کہا کہ کبابوں میں مرغی کا گوشت اور موٹا گوشت برابر برابر شامل کیا ہے۔ پوچھا گیا کہ کس طرح؟ اس نے کہا کہ ایک مرغ اور ایک بیل۔ ففٹی ففٹی۔ اس کے باوجود وٹو صاحب کے سیاسی کباب مزیدار تھے۔ محفل میں مجھے سوال کرنے کی عادت نہیں۔ یہ رپورٹرز کا حق ہے۔ بعد میں وٹو صاحب سے میں نے کہا کہ اب پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے درمیان ففٹی ففٹی کا فیصلہ کیسے ہو گا۔ میرے خیال میں ق لیگ کے ممبران 18 سے زیادہ ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے شاید کم ہوں کہ ن لیگ بھی ہے اور اب تحریک انصاف بھی زوروں پر ہے۔ وٹو صاحب ہنس دیئے اور کہا کہ وقت اور موقعے کی مناسبت سے فیصلہ ہو گا مگر وٹو صاحب کو پتہ ہے کہ فیصلے تو آصف زرداری کریں گے اور صلائے عام یہ ہے کہ وہ صدر زرداری ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے اصلی چیئرمین تو وہ بہرحال ہیں۔
اس صورتحال میں دو بیانات بڑے اہم ہیں۔ مزیدار بھی ہیں۔ چودھری شجاعت کے ایک بیان میں دو بیان ہیں۔ ایک تیر سے دو شکار۔ ”بینظیر بھٹو کے بعد اس وقت کوئی لیڈر پاکستان میں نہیں۔ یہ اشارہ صدر زرداری کی طرف ہے۔ نوازشریف اور عمران خان بھی توجہ کریں۔ یہ تو ایک تیر سے تین شکار ہو گئے۔ عمران تو کہتے رہتے ہیں کہ ایک بال سے تین آ¶ٹ مگر یہ ”ہیٹ ٹرک“ چودھری شجاعت کے حصے میں آئی۔
یونیفکیشن بلاک کے صدر عطا مانیکا نے کہا ہے کہ ڈاکٹر طاہر علی جاوید کے استعفیٰ سے پہلے بھی انہیں ہی صدر کہتے تھے۔ عطا مانیکا نے کہا کہ صدر زرداری نے منظور وٹو کو پنجاب کا صدر بنا کے یک نکاتی ایجنڈا دیا ہے۔ یہ زرداری صاحب کا ”ماسٹر سٹروک“ ہے وٹو کا ایجنڈا نوازشریف کو ڈرا¶ اور چودھری پرویز الٰہی کو بھگا¶ ہے۔ عطا مانیکا نے کہا ہے کہ صدر زرداری نے دو مکار لومڑیاں (پرویز اور وٹو) میدان سیاست میں چھوڑ دی ہیں۔ نوازشریف شیر ہونے کے زعم میں نہ رہے۔“
ق لیگ کے ممبران اسمبلی قمر حیات کاٹھیاڑ انجینئر شہزاد الٰہی اور عامر طلال گوپانگ نے کہا ہے کہ مسلسل سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے لوٹے عطا مانیکا خود ایک سیاسی لومڑ ہیں۔ انہیں اپنے سیاسی محسنوں کے بارے میں شائستہ زبان استعمال کرنا چاہئے۔ یہ تو طے ہے کہ وہ اپنی بقایا زندگی ”سیاسی قومہ“ میں گزاریں گے۔

ای پیپر-دی نیشن